بلوچستان کے بے یارو مدد گار سیلاب متاثرین 

Sep 23, 2022

غالب نے بہت پہلے سیلاب کے حوالے سے ایک شعر کہا تھا۔ گرچہ اس سے مراد اشکوں کا سیلاب تھا مگر حالات دیکھتے ہوئے وہ شعر ہمارے ملکی حالات اور سیلاب زدگان کی حالت دیکھ کر آج بھی موزوں ثابت ہو رہا ہے۔ حضرت غالب نے کہا تھا: 
آئے ہے بیکسی عشق پر رونا غالب 
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد 
آج تو یہ سیلاب بلاخیز سچ کہیں تو ملک کے ایک تہائی حصے میں ہر گھر میں داخل ہو گیا ہے۔ بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی کی ایسی داستانیں رقم ہوئی ہیں کہ بول بول کر گلے بیٹھ گئے ۔ سن سن کر کان پک گئے۔ لکھ لکھ کر قلم ٹوٹ گئے اور دیکھ دیکھ کر آنکھیں پتھر ا گئیں۔ مگر افسوس صد افسوس ان سیلاب کے ماروں کے حالات بہتر بنانے کے لیے جو کام ہونا تھا وہ نہیں ہو رہا۔ خاص طور پر بلوچستان میں جو ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ جس کا ایک بڑا رقبہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہاں تباہی اور بربادی کی ایک الگ داستان ہر جگہ نظر آتی ہے۔ یہ صوبہ جو رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے پہاڑی اور ریگستانی علاقوں پر مشتمل ہے اس صوبے میں آبادیاں ایک دوسرے سے بہت دور دور آباد ہیں دوسرا غربت کی وجہ سے اکثر آبادیاں یا گائوں کچے مکانات پر مشتمل ہیں یا خانہ بدوش انداز میں خیموں پر مشتمل ہیں۔ 
ان جفاکش لوگوں کی سب سے بڑی دولت وہ مال مویشی ہیں جو یہ پالتے ہیں جن کی بدولت یہ پاکستان کا سب سے زیادہ لائیو سٹاک والا صوبہ کہلاتا ہے۔ جہاں کھلے آب و ہوا میں بکریاں دنبے، گائے اونٹ چرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا نمبر پھلدار باغات کا ہے۔ جسے یہاں کے باغبان اپنے خون پسینہ سے سینچتے ہیں۔ اس کے بعد جو تھوڑا بہت پانی جہاں میسر ہے وہاں کھیتی باڑی ہوتی ہے۔ اب اس قدرتی آفت نے جو تیز طوفانی بارش کی شکل میں نازل ہوئی اس نے پورے صوبے میں تباہی و بربادی پھیلا دی۔ اربوں روپے کے مال مویشی، پھل ، باغات اور گھر سیل رواں کے ایک ہی ریلے میں بہہ گئے۔ سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے اور لاکھوں کی تعداد میں جانور مر گئے۔ اس طرح زرعی اجناس اور پھلوں کا نقصان بھی کروڑوں سے اوپر تک چلا گیا۔ جس کی وجہ سے ان غریبوں کی زندگی یوں سمجھ لیں ان سے روٹھ گئی ہے۔ 
یہاں کی حکومت کبھی اس قسم کی ہنگامی صورتحال سے ابھی تک نابلد تھی حکمرانوں کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ جو صوبہ ایک ایک بوند پانی کے لیے ترستا ہے۔ وہاں بھی آسمان سے ایسا اور اتنا پانی برسے گا کہ اسے سنبھالنے کے لیے کوئی بندوبست بھی نہیں ہو گا۔ اگر یہ حکمران بیدار مغز ہوتے تھے کم از کم سیلابی علاقوں میں مضبوط بند اور چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر اس پانی کو جو آفت بن کر آیا تھا محفوظ بنا کر رحمت میں بدل سکتے تھے۔ مگر جو تھوڑا بہت کام ہوا تھا وہ بھی ناقص نکلا اور سب بند ٹوٹ گئے۔ سڑکیں بہہ گئیں ۔ ڈیم غرقاب ہو گئے۔ اب دور دراز علاقوں میں کافی فاصلے پر قائم ان آبادیوں تک امداد پہنچانا بھی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ حکومت کچھ کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ وجہ وہی روایتی کاہلی اور بیوروکریٹس کی کام چوری ہے۔ جو اربوں کے امدادی فنڈز آئے اس کی تقسیم میں لوٹ مار اور کرپشن کی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ مسائل کا شکار سیلاب سے متاثرہ لوگ ابھی تک دہائی دے رہے ہیں کہ ’’سنتا نہیں کوئی بھی فریاد غریبوں کی‘‘ وزیراعظم شہباز شریف نے بلوچستان کے متعدد دورے کیے چمن سے لے کر ڈیرہ مراد جمالی تک وہ پہنچے لوگوں سے ملے ان کے لیے امداد کا اعلان کیا۔ مگر افسوس ابھی تک یہ امداد پہنچ نہیں سکی۔ صوبے میں سیلاب زدہ علاقوں میں پانی ، خوراک، ادویات، خیموں اور دیگر سامان کی شدید قلت ہے۔ آبادیاں دور دور ہونے کی وجہ سے بھی وہاں امدادی سامان پہنچانے میں دقت ہو رہی ہے۔ مگر ان باتوں کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ حکمران بری الذمہ ہو گئے ہیں۔ حکومت بلوچستان وفاقی حکومت کے تعاون سے فوری طور پر مرنے والوں کو زخمیوں اور جن کے گھر تباہ ہوئے مال مویشی اور باغات و فصلوں کا نقصان ہوا۔ امدادی رقم پہنچائے اور ان متاثرین میں غذائی اشیاء صاف پانی، ادویات اور خیموں کی فراہمی کا سلسلہ تیز تر کر دے تاکہ سردیاں شروع ہونے سے پہلے ہی یہ رہائش و خوراک کا بندوبست کر سکیں ورنہ سردیوں میں کوئی اور بڑا المیہ نہ جنم لے۔ کیونکہ بلوچستان میں سردیاں نہایت شدید ہوتی ہیں۔ 
سائبیریا کی سرد یخ بستہ ہوائوں سے ہڈیوں میں گودا تک جم جاتا ہے۔ موجودہ موسم میں ملیریا اور ہیضہ جان لیوا ثابت ہو رہا ہے۔ اس کے فوری تدارک اور متاثرین میں خیموں اور خوراک کی ضروریات پر توجہ مرکوز رکھی جائے تاکہ متاثرین سیلاب کی ڈھارس بندھے کہ حکمرانوں نے انہیں اس مصیبت میں تنہا بے یارو مدد گار نہیں چھوڑا۔ یاد رکھیں آگے الیکشن بھی آ رہے ہیں۔ آج ہمارے حکمران جو بوئیں گے وہی کل کاٹیں گے۔ اس لیے سب سیاسی جماعتیں آگے بڑھ کر متاثرین کی مدد کریں۔ ان کی دلجوئی کریں۔ 

مزیدخبریں