اقبال کا فلسفہ خودی ذات کی خوبیوں یا خامیوں سے منسوب نہیں تھا، بلکہ خود (ضمیر) سے لڑنا، خود سے بات کرنا اور خود کو سمجھانا ہی خودی کی منزل کو طے کرنا ہے، یقینا یہ حالت جنگ ہے۔ اور جنگ تو وہ ہے جو حق کے لیے لڑی جائے اور حق فرد واحد کی خواہش نہیں بلکہ اجتماعی مفادات کے تحفظ کی بقاء کا نام ہے۔
شاعر، ادیب ، صحافی سعید آسی صاحب کی نئی کتاب ’’آئین کا مقدمہ‘‘ بظاہر تو کالموں مجموعہ ہے مگر، یہ ایک تاریخی اور تدریسی دستاویز بھی ہے۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ آئین دراصل ریاست کا ڈھانچہ ہوتا ہے، ریاست میں حکومت کو کیسے تشکیل دینا اور امور کی انجام دہی طے کرنا، سب بیان کیا جاتا ہے۔ آئین بھی قانون ہے لیکن فرق یہ ہے کہ آئین مقدس ہوتا ہے۔ ہم آئین کا احترام کرتے ہیں اور یوم دستور بھی مناتے ہیں۔ مگر ریاست اور حکومت پر براجمان سیاسی جماعتوں کا یہ حال ہے کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے آئین کے تحفظ کی قسم تو کھا رکھی ہے مگر اسی آئین پر نقب لگائے بیٹھے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے آئین بنانے اور بچانے میں کس حد تک موزوں کردار ادا کیا، وگرنہ مسلم لیگ ن نے تو آئین کو بطور پراڈکٹ استعمال کیا۔ رہی سہی کسر تحریک انصاف کے عمران خان نے پوری کر دی، جن کی ساری سیاست کی بنیاد دلبرل شامیانوں تلے اسلامی تھیوری ہے۔ اس لیے وہ آئین مو توڑنے اور مروڑنے نے کا کوئی نیا نسخہ پیش کر دیتے ہیں۔ مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ آسی صاحب کو دکھ ہے، تشویش ہے، مایوسی ہے جو آئین پاکستان پر لگنے والی کاری ضربوں پر ہماری طرح آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ مگر واصف علی واصف کی بات سن کر میری سوچ بدل گئی کہ باز اور شکروں کی موجودگی میں چڑیاں کے بچے پرورش پاتے ہیں، آندھیاں شب چراغ نہیں بجھا سکتیں، شیر دھاڑتے رہتے ہیں اور ہرن کلیلیں بھرتے ہیں۔ یہ سب مالک کا نظام ہے۔ اس کی پیدا کردہ مخلوق اپنے اپنے مقرر کردہ طرز عمل سے گزرتی رہتی ہے۔ کچھ ایسا ہی طرز عمل آسی صاحب کا ہے۔ اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آسی صاحب کا قلم آئین شکنوں کے گلے کا طوق ہے۔ ان کے توانا الفاظ کی گونج اشرافیہ کے درودیوار کی لرزش ہے بطور وکیل آپ موجودہ عدالتی نظام کا حصہ جاتے اور کالا کوٹ پہن کر روایتی وکالت میں ڈھل جاتے، مگر انہوں نے انصاف کی گونج اشرافیہ کے درودیوار کی کاغذ پر کالی سیاہی سے ’’بانگ سرافیل‘‘ لکھ دی۔ اور یہ خاص کرم ’’کالی کملی‘‘ والے ہی کا ہے جو ہمت اور بے باکی سے کلمہ حق کی بلندی پر قائم رہنے کی سند لی۔
آسی صاحب کی کتابوں کی فہرست میں اضافہ نہیں، برکت ہے کہ سیکھنے، سمجھنے اور سنبھلنے کے نسخے دستیاب ہو رہے ہیں۔ تحریر میں تحریک کا عنصر موجود ہے۔ سنجیدہ موضوعات سے لے کر، اہم قومی امور اور ادب کی پگڈنڈیوں پر ان کا سفر رواں ہے۔ عوام اور حالت کی نبض پر ان کی گرفت ہے۔
ان کے یہ اشعار آج کے سیاسی حالات کی عکاسی کرتے ہیں:
ان کی اور اپنی حکومت میں بس اتنا فرق ہے
ان کی فوجی تھی ، یہاں جمہور کا پیوند ہے
ان کے منگلا اور ورسک بند تھے چھائے ہوئے
اپنا آٹا بند، چینی بند اور گھی بند
آسی صاحب کی سوچ، فکر اور ولولے کو محض ان کے کالموں نہیں،
بلکہ ان کی شاعری نے بھی نمایاں کیا:
پائوں جمتے ہیں نہ دستا سنبھالی جائے
اب تو بس عزت سادات بچا لی جائے
حِبس ایسا ہے کہ دم گھٹتا نظر آتا ہے
کر کے تدبیر کوئی تازہ ہوا لی جائے
آسی صاحب صرف صحافت ہی نہیں، بلکہ جمہوری معاشروں کا وہ ستون ہیں جو غیر طاقتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے، اپنی تہذیب، اقدار اور دین کی حفاظت اور سربلندی کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔
آسی صاحب کی یہ غزل ان کی متحرک زندگی کا بیان اور ایک ایسی انسانی کیفیت کا نام ہے کہ انسان خود سے ہم کلام ہونے لگتا ہے:
ہست کو بود کر رہا ہوں میں
خود کو مفتود کر رہا ہوں میں
روشنی اب تو جاں کو آتی ہے
شمع دُود کر رہا ہوں میں
کر رہا ہوں گلہ مقدر کا
اور بے سود کر رہا ہوں میں
خواہشوں کو سمیٹ کر دل میں
جینا محدود کر رہا ہوں میں
اس کو میری طلب نہیں پھر بھی
عشق مردود کر رہا ہوں میں
اپنی دنیا اجاڑ کر آسی
کس کی بہبود کر رہا ہوں میں