گزرے دن قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے روبرو گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصہ سے پاکستان میں بطور مہاجر مقیم افغان باشندوں کے بارے میں خوب لے دے ہوئی۔ چیئرمین نادرا کا یہ بیان تو حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری سلامتی و خودمختاری کے حوالے سے شرمناک اور افسوسناک بھی تھا کہ پاکستان کی شہریت اختیار کرنیوالے پانچ سو افغان باشندے پاکستان کے بارے میں حساس معلومات حاصل کرنے کے بعد پاکستان کی شہریت چھوڑ گئے ہیں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم صاحب جو تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ہیں اور وزیراعظم عمران خان کیخلاف اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر وہ پی ٹی آئی کے مخالف کیمپ میںچلے گئے تھے‘ پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری پر کوئی آنچ نہ آنے دینے کا بھرپور جذبہ رکھتے ہیں۔ اجلاس میں پیش کی گئی چیئرمین نادرا کی رپورٹ پر بہت جزبز ہوئے اور پاکستان میں سالہا سال سے مقیم افغانیوں کے طرز عمل کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے خفگی کا اظہار بھی کیا کہ یہ پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں، پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کرتے ہیں‘ ہم نے کراچی جیسے شہر میں افغانیوں کو کھلا چھوڑا ہوا ہے جو سڑکوں پر پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں اور ستم یہ ہے کہ جو بھی دہشت گرد پکڑا جاتا ہے وہ افغان باشندہ ہی ہوتا ہے۔ انہیں یہاں پر رہنے کا حق کیونکر حاصل ہے۔
جناب! یہی صلہ ہے ہمارے ’’افغان باقی، کہسار باقی الحکم اللہ‘ الملک اللہ‘‘ والے بے پایاں جذبے کا۔ افغانستان ہمارا برادر پڑوسی ملک ہے اور ایسا برادر پڑوسی ہے کہ تشکیل پاکستان کے بعد جب اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کیلئے ووٹنگ ہوئی تو ہمارے خلاف واحد ووٹ ہمارے اسی برادر پڑوسی ملک افغانستان کی جانب سے ڈالا گیا۔ علامہ اقبال تو مسلم دنیا کیلئے اسی رجائیت پسندی کا اظہار کرتے رہے کہ ’’ہر ملک ملکِ ماست کہ ملکِ خدائے ماست‘‘۔ ہمارے دینِ مبین نے تو مسلم دنیا کو ایک دوسرے کے ساتھ صلہ رحمی کے بندھن میں بھی باندھا ہوا ہے۔ چنانچہ ہم ایک دوسرے کیلئے ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سانجھا دکھ درد سمجھتے ہیں اور ہمارے اسی باہمی بندھن سے الحادی قوتوں پر لرزہ طاری ہوتا ہے جو مسلم دنیا کے اس اتحاد و اتفاق کو توڑنے کیلئے صلیبی جنگوں کے مراحل سے گزر چکی ہیں۔
دو دہائیاں قبل امریکی نائن الیون کا سانحہ رونما ہوا تو اس وقت کے امریکی صدر بش جونیئر نے الحادی قوتوں کے جنگی دفاعی پلیٹ فارم نیٹو کو متحرک کرکے افغان دھرتی پر باقاعدہ جنگ کا آغاز کیا تو اسے انہوں نے مسلمانوں کیخلاف صلیبی جنگ سے ہی تعبیر کیا۔ اس سے قبل یہی افغان باشندے سوویت یونین کیخلاف سرد جنگ میں امریکہ کے حلیف و معاون تھے اور واشنگٹن انتظامیہ انکے صدقے واری جانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی تھی۔ سو اس جنگ میں افغانیوں کے وارے نیارے ہوئے۔ ہمیں واشنگٹن انتظامیہ سے اس جنگ میں افغان مجاہدین کو جذبۂ جہاد سے سرشار رکھنے کیلئے انکی معاونت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ پتہ نہیں اسکے بدلے ہمیں امریکہ کی جانب سے کتنی گرانٹ ملی مگر اس وقت کے جرنیلی آمر ضیاء الحق نے سوویت یونین کیخلاف امریکی سرد جنگ کو اہلِ کفر کیخلاف جہاد سے ہی تعبیر کیا اور اسی ناطے سے افغان مجاہدین کی عسکری تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اسی جذبۂ جہاد کے صدقے ہجرت کرنیوالے افغان باشندوں کو پاکستان آنے کی دعوت دیکر ان کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کئے گئے۔ ہجرت کرنیوالے ان افغان باشندوں کی تعداد بتدریج بڑھتی گئی جن کیلئے صوبہ سرحد کے علاوہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی مختلف مقامات پر عارضی رہائش گاہیں تعمیر کرکے دی گئیں۔
ان مہاجرین کی پاکستان میں آباد کاری کیلئے امریکہ نے ہماری اس وقت کی فوجی حکومت کو یقیناً کچھ نہ کچھ گرانٹ بھی دی ہوگی مگر بالآخر یہ افغان باشندے ہماری معیشت پر ہی بوجھ بنے جنہیں پاکستان کی شہریت ملنا بھی شروع ہو گئی۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنیوالے افغان باشندوں کی تعداد چالیس لاکھ تک جا پہنچی جنہیں مسلم برادرہڈ والے جذبے کے تحت اپنے شہریوں کے حصے میں سے ہی خوراک و رہائش کے علاوہ ملازمتیں اور کاروبار کی سہولتیں بھی دی گئیں جبکہ ان افغان باشندوں نے ہمارے جذبۂ ایثار کا ہماری سرزمین پر کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر کو فروغ دینے کی صورت میں جواب دیا اور پھر چوری‘ ڈکیتی‘ راہزنی اور قتل و غارت گری بھی ہماری سرزمین پر افغان باشندوں کے لائے گئے کلچر کا حصہ بنی۔
ہم نے تو جناب صلہ رحمی کے اسی جذبے کو زاد راہ بنا کر افغان باقی، کہسار باقی والے جذبے کو اب تک زندہ رکھا ہوا ہے جبکہ امریکہ نے اپنے حلیف افغان مجاہدین کو اپنے مفادات پر زد پڑتے دیکھ کر بطور طالبان قبول کرنے سے معذرت کرلی اور نائن الیون کے سانحہ کے بعد تو طالبان کے قالب میں ڈھلنے والے افغان مجاہدین پر امریکہ نے باقاعدہ دہشت گرد ہونے کا لیبل لگا دیا۔ ہم پر تو مسلم برادرہڈ والا جذبہ غالب آچکا تھا اس لئے افغانستان میں دہشت گردی کیلئے متحرک ہونے اور امریکی نیٹو فورسز کی مزاحمت کرنیوالے افغان طالبان ہماری محبوبیت کے مضبوط دائرے میں آگئے۔ انہی طالبان نے نیٹو فورسز کو پسپا کرنے کی منصوبہ بندی کے تحت باقاعدہ طور پر دہشت گردی کی تربیت حاصل کی اور اس کیلئے بھارتی سرپرستی حاصل ہونے پر انکے فخرو اطمینان کی کوئی حد نہ رہی۔
ہم افغان جنگ میں امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی تھے جس کے ناطے کابل کی امریکی کٹھ پتلی حکومت کو ہمارا دم بھرنا چاہیے تھا مگر امریکی ڈومور کے تقاضوں کے ساتھ کٹھ پتلی کابل انتظامیہ کے بھی ہم سے تقاضے شروع ہو گئے جس نے باقاعدہ ہمارے دشمن کا روپ دھار لیا اور حامد کرزئی نیٹو فورسز کے کمانڈروں کو پاکستان پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دیتے نظر آئے۔ دوسری جانب طالبان کے مختلف گروپوں نے پاکستان سے امریکی فرنٹ لائن اتحادی والے کردار کا انتقام لینے کیلئے ہماری سرزمین کو اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں کی آماجگاہ بنالیا چنانچہ ’’افغان باقی‘ کہسار باقی‘‘ والے ہمارے جذبے کا افغان سرزمین پر کابل انتظامیہ اور طالبان دونوں کی جانب سے خوب ’’بندوبست‘‘ کیا گیا۔ ہمارے اس برادر پڑوسی ملک نے ہماری سلامتی و خودمختاری تاراج کرنے کیلئے بھارت کی معاونت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور یہ حقائق آج ہماری تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں کہ ہماری سرزمین پر ہونیوالے خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں میں سب سے زیادہ افغان باشندے ہی ملوث رہے ہیں۔
پھر بھی ہمیں خوش فہمی لاحق تھی کہ افغان سرزمین کی جانب سے صرف طالبان ہی ہمارے لئے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کا باعث بن سکتے ہیں۔ چنانچہ افغانستان کیلئے ہمارا مسلم برادرہڈ والا جذبہ ماند پڑنے کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی۔ گزشتہ سال امریکی دلبرداشتگی نے اسے افغانستان سے واپسی پر مجبور کیا تو ہم طالبان کی کابل حکومت میں واپسی کیلئے انکے معاون بن گئے۔ ہمیں توقع تو یہی تھی کہ طالبان واپس اقتدار میں آئیں گے تو ہمیں افغانستان کی جانب سے تسکین آور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ملنا شروع ہو جائیں گے مگر طالبان نے تو طوطا چشمی کے معاملہ میں امریکہ کو بھی مات دے دی۔ اقتدار میں آتے ہی طالبان قیادت نے ہمیں آنکھیں دکھانا اور ہماری بھد اڑانا شروع کر دی۔ ہماری سرزمین پر دہشت گردی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا تو عقدہ کھلا کہ ہمارے طالبان دوست ہی ہمارے ساتھ یہ مہربانی فرما رہے ہیں۔ ہم بھوکوں مرتے طالبان کو سہارا دینے کیلئے دنیا سے امداد کی اپیل کررہے تھے اور وہ رعونت کے ساتھ پاک افغان سرحد پر لگی باڑ اکھاڑنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ انہوں نے نہ صرف ڈھول تماشے کے ساتھ یہ باڑ اکھاڑی بلکہ پاکستان کے پرچم کی توہین کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ہم ابھی تک طالبان کے ذریعے افغانستان کی جانب سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کے منتظر ہیں اور وہ افغانستان کے اندر سے ہماری سکیورٹی فورسز پر حملوں کا بھی آغاز کرچکے ہیں۔ تو جناب! کیا آج چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی نورعالم کے اس سوال کا باضابطہ جواب تلاش نہیں کیا جانا چاہیے کہ پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگانے والے افغانوں کو یہاں رہنے کا کیونکر حق حاصل ہے۔ اگر اس کا جواب کہیں سے مل جائے تو براہ کرم قوم کو بھی اس سے آگاہ کر دیجئے‘ ورنہ:
حمیت نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے