70 سال تک مملکت متحدہ برطانیہ اور دولتِ مشترکہ کی قلمرو کی آئینی ملکہ الزبتھ دَوم 8 ستمبر 2022ء کو اِس عالم فانی سے عالم جاودانی میں پہنچ گئی ہیں۔ مختلف ملکوں کے حکمران ہوں یا عام اِنسان اُنہیں ایک نہ ایک دِن تو، خالق حقیقی سے جا ملنا ہوتا ہے۔ ملکہ معظمہ نے 2 جون 1953ء کو ویسٹمنسٹر ایبے، لندن میں تخت نشینی کی تقریب منعقد ہوئی، جس میں ملکہ ایلزبتھ باقاعدہ طور پر مملکت متحدہ، کناڈا، آسٹریلیا، نیو زی لینڈ، جنوبی افریقہ، پاکستان اور سری لنکا کی حکمران کے طور پر منسب سنبھالا تھا ۔ ملکہ معظمہ کی رحلت کے بعد اُن کے بیٹے ( شہزادے ) چارلس سوم (چارلس فلپ آرتھر جارج ) نے "King of the United Kingdom"کا منصب سنبھال لِیا ہے ۔ معزز قارئین ! 8 ستمبر سے 23 ستمبر تک الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر تمام پروگرام تفصیل سے دِکھائے جا رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ اُس کے بعد بھی یہ عمل مستقل جاری رہے گا ۔
’’ مختلف مذاہب کی دیو مالا!‘‘
معزز قارئین ! مَیں اکثراپنے کالم میں بیان کِیا کرتا ہُوں کہ ’’ مَیں نے پاکستان کے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ آدھی دُنیا کی سیر کی ہے لیکن میرا حاصل زندگی یہ ہے کہ ’’ مجھے ستمبر 1991ء میں ’’ نوائے وقت ‘‘ کے کالم نویس کی حیثیت سے صدرِ غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کے طور پر اُن کے ساتھ خانہ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت حاصل ہُوئی ہے اور میرا ایمان ہے کہ ’’ جنابِ مجید نظامیؒ کو بھی اِس کا ثواب ضرور ملا ہوگا لیکن8ستمبر سے نہ جانے میرے ذہن میں قدیم دَور کی اور بعد کی بھی دُنیا کے مختلف مذاہب کی دیو مالا "Mythology"کی مختلف کہانیاں اور اُس کے عظیم لوگوں "The Great Peopels" یا "Heroes" اور "Heroines" کی کہانیا ں یا مناظر کیوں یاد آ رہے ہیں ؟ قدیم یونان ، ہندوستان، روم، چین، مصر، عراق اور کئی دوسرے ملکوں کے مذاہب کی ابتدائی شکل ’’ دیو مالا ‘‘ ہی کی تھی، ہندوئوں نے توپوجا پاٹھ کے لئے 6 کروڑ دیوتا اور دیویاں بنا رکھی تھیں ۔ میرا تو ایمان ہے کہ ’’ مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح ؒ ، حضرت مریم ؑ کا بھی مکمل روپ تھیں ۔
’’ جنرل اسمبلی میں صدرِ پاکستان ! ‘‘
جولائی 2001ء میں صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف کو ’’ آگرہ سربراہی کانفرنس ‘‘ میں شرکت کے لئے نئی دہلی اور آگرہ میں مذاکرات کے لئے جانا تھاتو مَیں بھی اُن کی میڈیا ٹیم کا ایک رُکن تھا۔ مَیں کئی بار اپنے کالم میں ’’ہندو دیو مالا‘‘ اور اُن کے پیرو کار ہندوستانی بھارتیوں کا تذکرہ کر چکا ہُوں۔ صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہونا تھا۔ ’’نوائے وقت ‘‘ کے کالم نویس کی حیثیت سے مَیں بھی اُن کی میڈیا ٹیم کا رُکن تھا ۔ مَیں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اور صدرِ پاکستان کی تقریبات میں شرکت کی ۔ (اُن دِنوں ) برادرم منصور سہیل نیو یارک میں پاکستان کے "Minister for The Press" کی حیثیت سے "Consul General" تھے ۔
’’ آزادی کی دیوی ! ‘‘
معزز قارئین ! 1992ء سے میرا بڑا بیٹا ذوالفقار علی چوہان اپنے اہل و عیال کے ساتھ نیو یارک میں آباد ہے ۔ صدرِ پاکستان کی مصروفیات کے بعد اُس کی وساطت سے مجھے نیو یارک بندر گاہ کے درمیان ، جزیرۂ آزادی "Liberty Island"میں ’’ آزادی کی دیوی‘‘ کا مجسمہ دیکھنے کا موقع ملا۔ میرے سوال و جواب کی روشنی میں منتظمین نے مجھے آزادی کی رومن دیوی "Libertas" کا یہ مجسمہ دِکھایا ۔ مجسمہ ٔ آزادی رومن لباس پہنے ایک مشعل برادر خاتون جِس کے ہاتھ میں قانون کی تختی بھی ہے اور غلامی کی ٹوٹی ہوئی زنجیریںاْس کے پَیروں میں پڑی ہیں۔ دْنیا کے کسی بھی کونے سے جب بھی کوئی شخص سرکاری یا نجی دَورے پر نیویارک جاتا ہے تو میزبان اْسے مجسّمۂ آزادی ضرور دکھاتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا کہ ’’ یہ مجسمہ فرانسسیسی مجسّمہ سازMr.Frederick Augustنے بنایا تھا۔
’’ مادرِ ملّت سے ملاقات!‘‘
معزز قارئین ! مَیں اپنے کالم میں بیان کر چکا ہُوں کہ ’’ مَیں نے 1960ء میں مسلک صحافت اختیار کِیا جب مَیں ’’بی۔ اے فائنل‘‘ کا طالبعلم تھا اور فروری 1964ء میں جناب ِ مجید نظامیؒ نے مجھے ’’ نوائے وقت ‘‘ کا نامہ نگار مقرر کِیا اور جب 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں ( پاکستان مسلم لیگ کنونشن کے صدر ) صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظم ؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں جنہیں ’’ مفسرِ نظریہ پاکستان‘‘ جناب ِمجید نظامیؒ نے ’’مادرِ ملّت ‘‘ کا خطاب دِیا تھا ۔
’’ اُسوۂ حضرت زینبؓ !‘‘
تحریک پاکستان کے نامور قائد پنجاب مسلم لیگ فیڈریشن کے بانی صدر ، مولانا عبداُلستار خان نیازیؒ نے مادرِ ملّتؒ کے جلسہ ہائے عام سے خطاب کرتے ہُوئے پہلی بار اعلان کِیا تھا کہ ’’ مادرِ ملّتؒ سانحہ کربلا کے بعد اُسوۂ حضرت زینب ؓ کی پیروی کر رہی ہیں ‘‘۔ پھر اُس کے بعد مادرِ ملّت کے سبھی ہمنوا سیاسی جماعتوں کے مقررین نے اپنے جلسوں میں یہی مؤقف اختیار کِیا اور مَیں نے اپنے کالموں میں بھی ۔
’’مادرِ ملّت سے ملاقات ! ‘‘
معزز قارئین ! صدارتی انتخاب سے پہلے مَیں تحریک پاکستان کے دو (گولڈ میڈلسٹ ) کارکنان لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری ( موجودہ چیئرمین پیمرا ، پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ کے والد محترم) اور پاکپتن شریف کے چودھری محمد اکرم طور ’’ نوائے وقت ‘‘ کے سینئر ادارتی رُکن ، برادرم سعید آسی کے والد صاحب ) کا تذکرہ کر چکا ہُوں۔ میرے دونوں دوست جب تک حیات رہے وہ ، مادرِ ملّت ؒ کی عظمت بیان کرتے رہے ۔