وزیر اعظم شہباز شریف نے خطے میں مستحکم امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر،بھارت کو سمجھنا ہو گا جنگ آپشن نہیں،بھارتی فوج مقبوضہ وادی میں طاقت کا بے دریغ استعمال کرہی ہیبھارت سمیت ہمسایہ ممالک سے پرامن تعلقات چاہتے ہیں، فیصلہ ہم نے کرنا ہے ، اب بھی یہی محسوس ہورہا ہے کہ میں سیلاب سے متاثرہ سندھ یا پنجاب کے کسی علاقے کا دورہ کررہا ہوں، کوئی الفاظ صدمے کا اظہار نہیں کرسکتے جس سے ہم دوچار ہیں،پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے،گلوبل وارمنگ نے پورے پورے خاندان کو ایک دوسرے سے الگ کردیا،650 عورتوں نے سیلاب میں بچوں کو جنم دیا ۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم شہباز شریف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں یہاں پاکستان کی اسٹوری بتانے کے لیے موجود ہوں، میرا دل اور دماغ وطن کی یاد چھوڑنے کو تیار نہیں ہے، میں اب بھی یہی محسوس ہورہا ہے کہ میں سیلاب سے متاثرہ سندھ یا پنجاب کے کسی علاقے کا دورہ کررہا ہوں، کوئی الفاظ صدمے کا اظہار نہیں کرسکتے جس سے ہم دوچار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں یہاں پر موسمیاتی آفات سے تباہ کاریوں کی شدت کو بتانے آیا ہوں، جس کی وجہ سے پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے، 40 دن اور 40 رات شدید سیلاب نے صدیوں کے موسمیاتی ریکارڈ توڑ دیے ہیں، ہمیں اس آفات اور اس سے نمٹنے کے بارے میں آگہی ہے، آج بھی پاکستان کا بیشتر پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بچوں اور خواتین سمیت 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کو صحت کے خطرات درپیش ہیں، 6 لاکھ 50 ہزار حاملہ خواتین خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں، 1500 سے زیادہ لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں، جس میں 400 بچے بھی شامل ہیں، لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہونے والے افراد آج بھی خیمہ لگانے کے لیے خشک جگہ کی تلاش میں ہیں، متاثرین اور ان کے اہل خانہ کو دل دکھا دینے والے نقصانات ہوئے ہیں، ان کا روزگار آنے والے لمبے عرصے کیلیے چھن گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ابتدائی تخمینے کے مطابق 13 ہزار کلومیٹر کی سڑکیں اور 10 لاکھ سے زائد گھر تباہ ہو ئے اور مزید 10 لاکھ کو جزوی نقصان پہنچا، جبکہ 370 پل بہہ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ تباہ کن سیلاب کی وجہ سے 10 لاکھ مویشی ہلاک ہوئے، 40 لاکھ ایکٹر رقبے پر فصلیں تباہ ہوئیں، تباہی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان نے گلوبل وارمنگ کی تاریک اور تباہ کن اثرات کی مثالیں نہیں دیکھیں، پاکستان میں زندگی ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو چکی ہے، میں نے ہر تباہ کن علاقے کا دورہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام پوچھتے ہیں کہ یہ تباہی کیوں ہوئی اور کیا جاسکتا ہے اور کیا ہونا چاہیے، ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ ہماری وجہ سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جنگلات جل رہے ہیں اور ہیٹ ویو 50 ڈگری سے بڑھ گئی ہیں اور اب ہم غیرمعمولی جان لیوا مون سون کا سامنا کر رہے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے پڑوسی ملک بھارت سے متعلق کہا کہ بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات چاہتے ہیں، خطے میں مستحکم امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات سے امن عمل متاثر ہوا ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت قتل کیا جارہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وزیراعظم نے مطالبہ کیا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست کے غیر قانونی اقدامات واپس لے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کو سمجھنا ہوگا دونوں ممالک ایٹمی قوت ہیں جنگ آپشن نہیں ہے، 20 ویں صدی کے معاملات سے توجہ ہٹا کر 21 ویں صدی کے مسائل پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ جنگیں لڑنے کے لیے زمین ہی باقی نہیں بچے گی۔ وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ عالمی رہنمائوں کو قدرتی آفات کے خلاف متحد ہونا ہوگا، ہم بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ امن چاہتے ہیں، مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ طویل عرصے سے حل طلب ہے، بھارتی فوج مقبوضہ وادی میں طاقت کا بے دریغ استعمال کرہی ہے، بھارت مسلم اکثریتی مقبوضہ جموں کشمیر کو ہندو اکثریتی علاقہ بنانا چاہتا ہے، غیر کشمیری شہریوں کو کشمیری کا ڈومیسائل جاری کیا جارہا ہے، بھارت کے اقدامات عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی ہیں، ہم ہمسایہ ہیں اور ہمیشہ ہمسایہ رہیں گے، یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ امن کے ساتھ رہیں یا جنگ لڑیں، ہم نے تین جنگیں لڑیں جس سے غربت میں مزید اضافہ ہوا، ہمیں اپنے ریسورسز تعلیم اور دیگر ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنا چاہیے، یہ وقت ہے بھارت پیغام کو سمجھیں جنگ کوئی حل نہیں ہے، صرف پر امن مذاکرات سے ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔افغانستان کے حوالے سے شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان پر امن افغانستان دیکھنے کا خواہشمند ہے، کروڑوں افغانوں کو بغیر کسی معیشت کے چھوڑ دیا گیا ہے، افغان حکومت کو تنہائی کا شکار کرنے سے مسائل بڑھیں گے، ہمیں ایک اور خانہ جنگی اور مہاجرین کے بحران سے بچنا ہوگا، افغانستان سے دہشت گرد گروپ پاکستان کے لیے خطرہ ہیں، تمام دہشت گرد گروپوں سے مستقل طور پر نمٹنا ہوگا، عالمی برادری افغانستان کو انسانی ہمدردی کی نظر سے دیکھے۔ پاکستان نے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان دو دہائیوں سے دہشتگردی کا شکار ہے، 80 ہزار جانوں کی قربانی دی ہے، دہشتگردی اور منشیات کی سمگلنگ روکنے کے لیے دنیا کو کام کرنا ہو گا۔ ہماری فوج نے عوام کی مدد سے دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے، ہم سرحد پارسے ہونے والی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے بھی پر عزم ہیں۔