کتاب کی حرمت کا پاسباں

علامہ عبدالستار عاصم
ندیم اپل
اگر انسانی عقل و شعور میں زخیزی ہو خیالات کی پرواز پردسترس ہو،الفاظ کی حرمت اور تقدیس سے آگاہی ہواور قلم و قرطاس سے لگاو¿ ہو ایسی صلاحییتوں کے ساتھ بیشک کتاب تو لکھی جا سکتی ہے مگر سب سے اہم مرحلہ علم و عرفان کی اس دولت کو طالبان علم تک پہنچانا ہوتا ہے جو سب سے بنیادی کام ہے۔یہ ایسا ہی ہے کہ شاعر مشرق نے خطے میں اسلامی ریاست کے قیام کیلئے دو قومی نظریہ تو پیش کر دیا مگر اس کے کیلئے بانی پاکستان کی قیادت نے خطے کے کروڑوں مسلمانوں نے جو قربانیاں دیں دراصل وہی پاکستان ہے اسی طرح سوچنے والے نے تو سوچ لیا کاتب نے الفاظ کے موتی بھی پرو دیے مگر جب تک ان موتیوں کی مالا پرونے والا نہیں ہوگا یہ الفاظ بے معنی ہو کر رہ جائیں گے۔عہد حاضر میں پبلشنگ کی دنیا میں جو واحد شخصیت ہیں جنہوں نے کتاب کی تعظیم،حرمت اور تقدیس کو بام عروج تک پہنچا دیا ہے وہ علامہ عبدالستار عاصم ہیں جنہوں نے اس ڈیجیٹل دور میں بھی کتاب کو علم و آگہی کے اس مقام پر پہنچا دیا ہے جس کا موجودہ ڈیجیٹل دور میں محتاج ہو کر رہ گیا ہے ایک دانشور نے تو یہ بھی کہہ دیا جس طرح اگر یورپ اپنی ایجادات واپس لے لے تو دنیا میں باقی کچھ بھی نہیں بچتا اسی طرح اگر علامہ عبدالستار عاصم جو کہ قلم فاو¿نڈیشن انٹرنیشنل کے روح رواں ہیں اگر وہ پچھلے دو عشروں میں اپنے ادارے کے زیر اہتمام شائع ہونیوالی کتابیں واپس لے لیں تو کمپیوٹر کے آگے بیٹھ کر سرچ کرنے والوں کے پاس کچھ بھی نہیں بچتا،سو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح عہد حاضر کی دنیا قدامت پسندی کے دور سے باہر نکل کرچاند تک پہنچ گئی ہے اسی طرح علامہ عبدالستار عاصم نے ہر طرح کے جدید موضوعات پرکتاب شائع کرکے کتاب اور ڈیجیٹل میڈیا کا ایک ہی سطح پر لے آئے ہیں۔اس وقت پاکستان میں جتنے نوجوان ریسرچرز کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر ہر طرح کے
دینی،دنیاوی، علمی ادبی اور سائنسی علوم پر تحقیق کرتے ہیں وہ نیٹ پر موجود علامہ عبدالستار عاصم کے ادارے قلم فاو¿نڈیشن انٹرنیشنل کی شائع کردہ کتابوں سے ہی استفادہ کرتے ہیں اس طر ح ہم کہہ سکتے ہیں کہ کہ علامہ عبدالستار عاصم محض ایک پبلشر ہی نہیں بلکہ علم و عرفان کے بہاو¿ کا ایک ایسا ڈیم ہیں جہاں سے الفاظ کا ذخیرہ اور علم کی دولت کبھی کم نہیں ہوتی اور یہ جتنی استعمال ہوتی ہے اس میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے۔
علامہ صاحب سے میں نے پوچھا کسی کے ذہن کو بدلنے کیلئے کتاب کیا کردار ادا کر سکتی ہے تو وہ فرمانے لگے کہ جب کسی کو نصیحت کرنا مقصود ہو تو الفاظ اور انداز ہمیشہ نرم اپنانا چاہیے کیونکہ مقصد دستک دینا ہوتا ہے کسی کا دروازہ توڑنا نہیں ہوتا۔میرے پاس جب کوئی مسودہ کتابی صورت میں چھپنے کیلئے آتا ہے تو میں اس کے موضوع پر ضرور دھیان دیتا ہوں میرے کوشش ہوتی ہے کہ میرے ادارے کے زیراہتمام کوئی ایسی کتاب عوام میں نہ چلی جائے جس سے دین،سماج اور معاشرے کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔مجھے کسی نے کہا کہ اکثر کتابوں میں جو پبلشنگ کی دنیا میں چھپ رہی ہیں ان میں زیادہ تر جھوٹ لکھا ہوتا ہے اور یہ کتابیں بک بھی جاتی ہیں میں نے سوال کرنے والے کو یہی جواب دیا کہ جھوٹ اس لیے بک جاتا ہے سچ خریدنے کی اوقات کسی کی نہیں ہوتی۔
مجھے یہ کہنے میں کچھ تامل نہیں کہ علامہ عبدالستار عاصم نے دور حاضر میں کتاب کا کلچر تبدیل کر دیا ہے اس کا لباس تبدیل کر دیا ہے اور جب ایسی اچھی اچھی کتابیں چھپیں گی تو ظاہر ہے وہ اچھے اچھے ہاتھوں میں ہی جائیں گی۔ابھی کل ہی دانشوروں اور دوست احباب کی محفل میں ملک کے نامور دانشور اور صحافی مجیب الرحمن شامی فرما رہے تھے کہ وہ حیران ہیں کہ علامہ عبدالستار عاصم نے مختصر عرصہ میں ہزاروں کتابیں کس طرح شائع کردیں لگتا ہے ان کے پاس کوئی طلسماتی قوت ہے جس کے بارے میں کسی کو بتاتے نہیں مگر خود اکیلے اکیلے فائدہ اٹھائے چلے جا رہے ہیں۔
?ٰایک روز میں نے علامہ صاحب سے پوچھا آپ کے ادارے نے کیا کبھی کوئی ایسی کتاب لکھی ہے جو کسی حاکم وقت کو ناگوار گزری ہو میرے سوال پر علامہ صاحب قدرے توقف کے بعد بولے جب دل فقیری پر اتر آئے تو پھر بادشاہوں سے الجھنے کا ڈر خوف دل سے نکل جاتا ہے میں تو ہر کتاب کو ایک عبادت سمجھ کر چھاپتا ہوں اور میری خواہش ہوتی ہے کہ میری کتاب سے اگر معاشرے کے کسی ایک فرد کی بھی اصلاح ہوجائے تو میں یہ سمجھوں گامیں نے زندگی کا مقصد حاصل کر لیا۔میں تو ایک حقیر انسان ہوں اللہ تعالیٰ نے مجھ سے جو کام لینا ہے لے رہا ہے۔یہ جو انسان کے اندر کی ایگو ہے جس کی وجہ سے وہ خوش فہمیوں میں مبتلا جاتا ہے اور ذہن میں یہ غلط سوچ بٹھا لیتا ہے کہ دنیا اس کے بغیر چل نہیں سکتی اسے یہ علم ہونا چاہیے کہ انسان کبھی کسی کیلئے اتنا ضروری نہیں ہوتا جتناوہ گمان کر لیتا ہے۔میں نے ایسے کئی سیانوں کو دیکھا ہے جو نادانوں کے ہاتھوں لٹ جاتے ہیں یہ جس شخص پر بھی اندھا اعتماد کرتے ہیں وہی ان کو دھوکہ دے کر چلا جاتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اندھا وہ نہیں بلکہ یہ سیانا اندھا تھا جس نے کسی پر اندھا اعتماد کیا۔
علامہ عبدالستار عاصم نے کتابوں کی صورت میں ستاروں کا ایک ایساجہاں بسا دیا ہے جن کی روشنی بھٹکے ہوو¿ں کو راستہ مل جاتا ہے،کہتے ہیں کہ علم سب سے بڑی دولت ہے اور علامہ صاحب علم کی دولت عبادت سمجھ کر خوشی خوشی ہر ایک میں تقسیم کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں۔دوست احباب میں جب وہ مہنگی ہی مہنگی لاگت والی کتابیں خوشی خوشی مفت میں تقسیم کر دیتے ہیں تو اس کے پیچھے یہی ایک جذبہ کارفرما ہوتا ہے کہ کہ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔
???

ای پیپر دی نیشن