حکیمانہ ....حکیم سید محمد محمود سہارن پوری
hakimsaharanpuri@gmail.com
قربان علی سالک یاد آگئے ‘´ صحت ،تندرستی اور قابل رشک زندگی سے متعلق کیا کہا اور خوب کہا !!
تنگ دستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے !!
صحت کا تعلق اچھے بلکہ آئیڈیل ماحول سے ہے اور ماحول اس وقت خوبصورت ہوتا ہے جب زندگی فطرت سے قریب ہو، ہماری زندگی جب جب فطرتی ماحول سے منسلک رہی مسائل ومشکلات اور بیماریاں ہم سے دور رہیں۔ اور جیسے ہی ہم نے سبزیوں‘ پھلوں اور قدرتی ماحول سے فاصلہ بڑھایا ویسے ہی امراض ہم پر حملہ آور ہوہتے رہے آج یہ حالت ہے کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی مسائل در مسائل ترقی معکوس کا شکار ہے۔ یہ درست ہے کہ انسان کے جنم اور معاشرتی زندگی کے آغاز سے ہی بیماریاں ”زندگی“ کے پیچھے پیچھے چل رہی ہیں جہاں مرض کو موقع ملا اس نے اثر دکھلا کر زندگی پر غلبہ پانے کی کوشش کی۔ بیماری اور صحت کا یہ کھیل ابتداءسے جاری ہے اور زندگی کی آخری سانس تک یہ سلسلہ کسی نہ کسی سطح پر چلتا رہے گا۔
یہ بھی درست ہے کہ زندگی کو محفوظ اور صحت مند رکھنے کے لیے انسان قدرت کی عطیہ کردہ جڑی بوٹیوں سے استفادہ کرتا رہاہے۔ جڑی بوٹی اور حکیمانہ مشور ے آج بھی انسان کی ضرورت ہیں۔ دانت کے درد میں لونگ کا استعمال ، اسی طرح چوٹ ‘ زخم اور درد میں ہلدی کے ساتھ مسواک ، شہد ‘ زیتون ‘ملٹھی ‘ ساگودانہ‘ باجرہ‘ مکئی‘ ادرک‘ دال چینی اور الائچی سمیت مختلف اشیاءکا استعمال ان کا تیز اثر شفاءمن جانب اللہ کا بڑا ثبوت ہے۔ آج کی دنیا میں بیمار زندگیوں کو صحت وشفاءکی طرف لانے میں طب‘ ہومیوپیتھک اور انگریزی طریقہ علاج کے ساتھ سرگرم عمل ہے ۔ چار برس قبل عالمی وباءکرونا وائرس کے دوران وطن عزیز میں آٹھ ہزار حکماءنے قومی خدمت کی درخشاں مثالیں قائم ہیں۔ ایک عرصے تک ان کا خدمات کا اعتراف ہوتا رہا۔ یہی نہیں صوبہ پنجاب کے ہر ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال میں موجود حکیم صاحبان قدیم ‘ قدرتی او آزمودہ علاج سے شہریوں کی خدمت کرتے رہے ۔ شہریوں کو یہ افسوس ناک خبر بھی سننا پڑی کہ نگران صوبائی حکومت نے یک جنبش قلم صوبہ پنجاب کے تمام ہسپتالوں میں طب مراکز بند کرکے حکماءکو قومی خدمت سے روک دیا۔ شہری سراپا احتجاج ہیں کہ عبوری حکومت انسانی صحت سے متصادم بڑا فیصلہ کیسے کرسکتی ہے؟ راولپنڈی اور پوٹھوار سے متلق حکماءکے ساتھ لاہور سے پاکستان قومی طب کونسل سے وابستہ شخصیات نے صوبائی وزیر صحت سے ملاقات کرکے اپنی تشویش سے آگاہ کیا ۔دو اڑھائی ماہ گزر گئے ابھی تک ہسپتالوں میں مطلب بحال ہوئے نہ پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن کی سرگرمیوں کی بابت شکایات کا ازالہ ہوا۔ ہیلتھ کیئر کمیشن کے زیر نگرانی مطب کا وزٹ اور حکیموں سے انٹرویو ڈاکٹروں کا پینل کرتا رہا۔ ہیلتھ کئیر کمیشن کا یہ جواز درست مان لیا جائے تو پھر حکمیوں کا پینل تشکیل دے کہ انہیں بھی میڈیکل لیب ،کلینک اور میڈیکل سنٹر کے وزٹ کی اجازت دی جائے ۔ڈیڑھ برس قبل چاندنی چوک چراہ روڈ پر ہمارے مطب کا جائزہ اور معائنہ کرنے والے ڈاکٹروں نے جس ”حسن سلوک “کا مظاہرہ کیا اس پر سوائے ماتم کے اور کیا کیا جاسکتا ہے ۔ ہم وزیراعظم انوار الحق کاکڑ‘ وفاقی وزیر صحت جان محمد‘ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹرجاوید اکرم اور نگران ہیلتھ منسٹر برائے پرائمری ہیلتھ امور ڈاکٹر جمال ناصر سے دردمندانہ التماس کرتے ہیں کہ خدارا خدمات دینے والے اداروں اور شخصیات کو عزت اور احتشام کے گلاب دیں مباداکہ زندگیوں کو صحت اور آسودگی کی طرف لانے والے 80 لاکھ” مسیحا “بھی اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر آجائیں
آپ ہی اپنی اداو¿ں پر ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی