سوشل میڈیا وفائیں کھا گیا

حیف کہ پاکستانی قوم کی اکثریت کو سوشل میڈیا استعمال کرنا نہیں آیا۔ شعوری فقدان کے باعث سوشل میڈیا کا استعمال بندر کے ہاتھوں میں ماچس پکڑانے کے مترادف ہے کہ جس کی لگائی آگ گھروں کے گھر اجاڑ دے۔ سوشل میڈیا ایپس کا سب سے منفی پہلو یہ ہے کہ اس میں ذیادہ تر مواد فینٹسی، نرگسیت، نمودونمائش پر مبنی ہے۔ لوگوں کی اصلیت معلوم کرنا سب سے اوکھا کام ہے۔ سچ کہیں تو سوشل میڈیا اک سراب ہے دور سے ہر چیز اپنے مطلب کی معلوم ہوتی ہے اور جب قریب جاو¿ تو معاملہ ہی الٹ ہوتا ہے۔ 
دیگر اقوام انٹرنیٹ کے درست استعمال سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں اس کے مقابلے میں ہماری ینگ جنریشن فی الحال مستقبل کا درست تعین نہ ہونے، سیاسی و سماجی مایوسیوں اور بے روزگاری کے نتیجے میں سوشل میڈیا ریلز اور ویڈیوز دیکھنے پر ہی اکتفا کر رہی ہے۔ ٹیکنالوجی و ہنر سیکھنے سے عاری نوجوانانِ پاکستان نے ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر ناکارہ، فحش ویڈیوز بنانے کو ہی روزگار کا ذریعہ بنا لیا ہے جس نے ہماری جاندار تہذیب و ثقافت، ورثہ کو براہِ راست ٹھیس پہنچائی ہے۔
قارئین ہمارے بسترِ مرگ معاشرے میں آئے روز ایسے والے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جو ہمیں باقاعدہ منہ چڑھانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ یورپین ہمیں آئینہ دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ "عریانیت صرف ہمارے ممالک میں ہی ذیادہ نہیں پاکستان میں بھی اتنی ہی فحاشی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں پر سرعام ہے اور پاکستان میں پردہ کے پیچھے؟“ 
مشاہدے میں ہے کہ گزشتہ 15 برسوں سے لوگوں کے درمیان وفاو¿ں کا گراف سکڑ رہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی کو کسی کی پرواہ نہیں رہی۔ مثال کے طور پر اگر کوئی پہلے کسی سے روٹھ جاتا تھا تو جس سے شکایت ہوتی تھی وہ روٹھے کو منانے میں اپنی تمامتر کوششیں صرف کر دیتا تھا۔ اس کے برعکس عصر حاضر میں کسی کوکسی کی پرواہ نہیں رہی۔۔۔ یہ فیصلہ لینے میں ایک سیکنڈ نہیں لگتا کہ کوئی جا رہا ہے تو جائے سوشل میڈیا پر ایک ہجوم ہے۔۔۔ کوئی اس سے بہتر رفیق مل جائے گا۔۔۔ "نو اشو"۔ 
ستم ظریفی تو ملاحظہ کیجئے کہ خاوند کی غیر موجودگی میں بیوی دغا دے رہی ہے، خاوند سوشل میڈیا پر شوخ و چنچل خواتین کو دیکھ کر بیوی کو نظر انداز کر رہا ہے۔ بچوں کی اکثریت والدین سے جھوٹ بول رہی ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل ہیں جبکہ وہ اخلاق باختہ سائٹس پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ افسران دوران ڈیوٹی سوشل ایپس کے نوٹیفکیشن چیک کرکے اپنے عہدے سے ناانصافی و بے وفائی کر رہے ہیں۔
 آخر یہ ہو کیا رہا ہے ہمارے معاشرے میں۔۔۔ ؟ہماری اقدار کو کس منحوس کی نظر لگ گئی ہے۔ گزشتہ روز ڈیلیوری بوائے اور خاتون کی وٹس ایپ پر خفیہ آشنائی کے نتیجے میں خاتون کے شوہر نے طیش میں آ کر ڈیلیوری بوائے کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کو جلا کر کوئلہ کر دیا۔ بے وفائی کے ایسے کیسز کا بڑھنا یقیناً لمحہ فکریہ ہے۔ عورت کو ہمارے ہاں وفا کا استعارہ گردانا جاتا ہے۔ وہ دیگر تہذیبوں کے مقابلے میں اپنے گھر کی وفا دار رہی ہے۔ شوہر کی عدم موجودگی میں اس کی عزت و مال کی چوکیدار رہی ہیں۔ اگر وہ بےوفائی کی مرتکب ہوئی تو معاشرتی حسن کو گرہن لگ جائے گا۔ بےوفائی کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ 
مثال کے طور پر بچوں کی تربیت کی بجائے سوشل میڈیا کو ترجیح دی جائے۔۔۔ گھریلو ملازمین اس کے شوہر کی کمائی یعنی دال راشن کو چوری کر رہے ہیں خاتون فیس بک میں مشغول ہیں اور کوئی پرواہ نہیں۔۔۔ یا شوہر کے علاوہ کسی اور سے رواسم محبت استوار کر رہی ہیں تو وہ صراحتاً بے وفائی کے زمرے میں آتا ہے۔ 
 قارئین ملک دشمن عناصر نے پاکستان کی سالمیت کے حوالے سے ایک بات کہی تھی کہ پاکستانی قوم کو تباہ کرنا آسان نہیں کیونکہ اس کا فیملی سسٹم بہت مضبوط ہے۔ یہاں فیملی سسٹم سے مراد اس "خاتون خانہ" کو کہا گیا جو بچوں کی تربیت میں کوئی کمی نہیں چھوڑتی۔ مگر اب تو الٹی گنگا بہنے لگی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے سوشل میڈیا کو بطور آلہ جاسوسی بنایا اور ہم۔۔۔ ہم نے اس کو سروں پہ سوار کرکے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔سوشل میڈیا کا اعتدال سے استعمال سود مند ہو سکتا ہے لیکن خدارا اس پلیٹ فارم پر اپنی عقلیں زائل نہ کیا کیجئے۔

ای پیپر دی نیشن