نگران حکومت آئینی دائرے میں رہے

نگران حکومت بہت سے ایسے کام کررہی ہے جو اس کے دائرہ کار میں آتے ہی نہیں ہیں۔ اس سے نہ صرف ملک میں انتشار پھیل رہا ہے بلکہ عوام کا ریاست پر اعتماد بھی متاثر ہورہا ہے۔ اب نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہا ہے کہ سرکاری تحویل کے کاروباری ادارے 500 ارب روپے سالانہ کے قریب نقصان کر رہے ہیں، سرکاری ملکیتی اداروں کے حوالے سے پالیسی ڈیزائن تیار کرلیا گیا ہے، اداروں کی شفاف انداز میں نجکاری کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ نگران حکومت ملکی معیشت کی بہتری کے لیے مثبت اقدامات کررہی ہے۔ نگران وزیر خزانہ نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ حکومت کی ملکیتی کمپنیاں انرجی، ٹیلی کمیونی کیشن، ٹرانسپورٹیشن، مالیاتی سیکٹر ، بینکنگ ٹریڈ اور مارکیٹنگ کے شعبوں سمیت دیگر فیلڈ میں کام کر رہی ہیں۔ نگران حکومت کا یہ کام ہرگز نہیں ہے کہ وہ بڑے اور اہم پالیسی فیصلے کرے۔ آئین کے مطابق، نگران حکومت عارضی بنیادوں پر صرف اس لیے قائم کی جاتی ہے تاکہ وہ انتخابات کے سلسلے میں معاون کے طور پر کردار ادا کرسکے۔ اداروں کی نجکاری کا فیصلہ ایک بہت بڑا اور اہم فیصلہ ہے جو مستقل حکومت کو اس وقت کرنا چاہیے جب پارلیمان موجود ہو اور اس میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے ارکان سب پہلووں کا جائزہ لے کر یہ دیکھ لیں کہ کسی قومی ادارے کو ذاتی یا گروہی مفادات کی بھینٹ تو نہیں چڑھایا جارہا۔ یہ فیصلہ نگران حکومت کے کرنے کا ہرگز نہیں ہے، لہٰذا نگران حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اس فیصلے سے گریز کرے۔ مقتدر حلقوں کو بھی چاہیے کہ وہ نگران حکومت کو ایسے کسی بھی معاملے میں دخل اندازی نہ کرنے دیں۔

ای پیپر دی نیشن