تھرتھر کانپتا نواز شریف

بعض سے کیا مراد ہوا کرتی ہے؟۔ بالعموم سو میں سے دس یا بیس۔ اس لئے کہ اکثریت کو بعض نہیں کہا جاتا۔ یہ لفظ اقلیت کے لیے ہے چنانچہ 49 فیصد کو بھی بعض کہا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ پاکستان ہے، یہاں بعض اوقات بعض سے مراد سو فیصد بھی ہوا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر کہا جائے کہ بعض پولیس افسر کرپٹ ہوتے ہیں تو سننے والا فوراً ہی بعض کا ترجمہ سو فیصد کا کرے گا۔ 
چنانچہ بعض دودھ فروشوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دودھ میں پانی ملاتے ہیں اور باقی بعض کے بارے میں سب کو پتہ ہے کہ وہ پانی میں دودھ ملاتے ہیں۔ یعنی 20 لٹر کے ڈرم میں 19 لٹر پانی ڈال کر ایک لٹر دودھ کا، پھر اس کچّی لسّی کو کیمیکل ڈال کر گاڑھا کر کے اسے ”اصلی کے مافق“ دودھ بنا دیتے ہیں۔ اس فقرے میں بعض سے مراد آپ ففٹی ففٹی لے سکتے ہیں۔ کئی دودھ والے ذرا بھی ملاوٹ نہیں کرتے لیکن وہ ہمارے ہاں نہیں، دوسرے ملکوں میں عام مل جاتے ہیں۔ عام کیا، ملتے ہی وہیں ہیں۔ وہاں چنانچہ بعض کا چکّر ہی نہیں ہے۔ 
دودھ میں ملاوٹ کا ماجرا یوں یاد آیا کہ تین روز قبل میاں نواز شریف نے لندن سے ایک بیان دیا کہ ملک برباد کرنے والے چھ افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ اس مرتبہ مٹی پاﺅ پالیسی نہیں چلے گی۔ انہوں نے چار ججوں اور دو جرنیلوں کے نام لئے، ایک نام سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کا بھی تھا۔ 
اس سے اگلے روز شہباز شریف لندن سے پاکستان پہنچے۔ ان کی ملاقات گوجرانوالہ میں کسی بڑے کے نمائندے سے ہوئی (مبینہ طور پر) جس کے بعد انہوں نے فوری طور پر دوبارہ لندن کیلئے اڑان بھر لی۔ 
بس یہیں سے ”دودھ فروش“ حرکت میں آئے۔ ایک لٹر نہیں، سوگرام دودھ میں سو لٹر پانی ڈال کر ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ گئے۔ ان کی تعداد کتنی ہو گی، وثوق سے نہیں کہہ سکتا، دس کو البتہ میں نے بھی سنا، چنانچہ دس سے زیادہ ہی ہوں گے۔ 
جو پانی انہوں نے ملایا وہ کچھ یوں تھا کہ شہباز شریف کو زبردست ڈانٹ پڑی ہے، ایسی زبردست ڈانت کہ ان کے پسینے چھوٹ گئے۔ انہیں بتایا گیا کہ فوراً لندن پہنچو، اور بڑے بھائی کو بتا دو کہ ہم نے ان کے نام پر کاٹا لگا دیا ہے اب پاکستان آنے کا خیال دل سے نکال دو، آئے تو پکڑ کر اندر کر دیں گے۔ تم نے باجوہ کا نام لینے کی جرات کیسے کی، اس کے بعد شہباز شریف تھر تھر کانپتے لندن پہنچے اور بڑے بھائی کو بتایا کہ غضب ہو گیا، آپ نے باجوہ کا نام کیوں لیا ، آپ کے نام پر کاٹا لگ گیا۔ اب کیا ہو گا۔ یہ سن کر بڑے بھائی بھی تھر تھر کانپنے لگے اور اطلاعات کے مطابق ، تادم ایں پروگرام دونوں بھائی مل کر بدستور کانپے جا رہے ہیں ، تھر تھر....تھرتھر! 
یہاں سے پھر دودھ فروش دو حصوں میں منقسم ہو گئے۔ ایک گروہ نے کہا کہ نواز شریف کے نام پر کاٹا لگنے کے بعد دوبارہ عمران خان سے مذاکرات شروع کر دئیے گئے ہیں۔ محمد علی درانی کو پھر عارف علوی کے پاس بھیجا گیا ہے۔ کچھ معاملات ”ڈن“ ہو گئے ہیں اور کچھ ”دیر ڈ ن“ ہیں۔ سب ڈن ہونے کی دیر ہے، عمران خان کو پھر جیل سے نکال کر وزیر اعظم ہاﺅس پہنچا دیا جائے گا۔ دودھ فروشوں کا دوسرا گروہ بتا رہا ہے کہ نواز کے نام پر تو کاٹا لگ گیا، اب شہباز کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، وہ سب کو قابل قبول ہیں، کسی سے لڑتے نہیں، کسی کو ”ناں“ تو کبھی کرتے ہی نہیں ، ان کی ہاں پسندی پیا کو بھاگئی ہے۔ 
ملاحظہ فرمایا۔ اس دودھ میں پانی ہی پانی تھا، دودھ ذرا بھی نہیں، شہباز جو بھاگم بھاگ گئے، وہ بالکل ہی الگ کہانی ہے، ڈانٹ ڈپٹ کاٹا لگنے اور باجوہ کا نام لینے کا کوئی مسئلہ معاملہ سوال جواب کچھ بھی نہیں تھا۔ دو روز تک کہانی سامنے آ ہی جانی ہے۔ 
____________
برسبیل تذکرہ ، محمد علی درانی سے پی ٹی آئی کی ساری امید بندھی ہے کہ وہ عمران کو بچا لیں گے، وہ بڑوں سے ان کی صلح بھی کروا دیں گے، کھویا ہوا تخت و تاج بھی دلوا دیں گے۔ 
یہ امید کیسی ہے؟۔ فرض کیجئے، کسی کا مسئلہ ایسا ہو، مثلاً قومی سطح کا اور وہ پھنسا ہوا ہو سعودی ولی عہد کے پاس تو کوئی کہے میں طاہر اشرفی یا ساجد میر کی سفارش کراﺅں گا تو بات میں منطق ہے۔ ان کی سفارش مانی جائے یا نہ مانی جائے، وہ بعد کا معاملہ ہے لیکن سفارش کرنے کی حد تک بات سمجھ میں آتی ہے، معقول بھی ہے۔ 
لیکن اگر کوئی منظور پشین کو لے کر جدہ پہنچ جائے تو....؟ بات سمجھ میں آ گئی....منظور پشین بہت اچھے آدمی ہیں لیکن سعودی عرب کے معاملے میں غیر متعلقہ ہیں۔ 
عمران کو ظہیر الدین بابر کی طرح کھوئی سلطنت پانے کا عزم صمیم لاحق ہے تو وہ بھلے منظور پشین کی خدمات حاصل کر لیں۔ نتائج تو وہ بھی نہیں دے سکیں گے لیکن کم سے کم بھد اتنی نہیں اڑے گی جتنی درانی کے معاملے میں اڑ رہی ہے۔ 
____________
الیکشن کمشن نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے یعنی جس ہفتے کی تاریخ ہو گی، اس کا اعلان کر دیا ہے، اس نے کہا کہ الیکشن جنوری کے آخری ہفتے میں ہوں گے۔ یعنی مارچ میں سینٹ کے الیکشن تک ایوان مکمل ہو جائے گا۔ پی ٹی آئی نے حسب معمول، حسب سابق، حسب توقع اس اعلان کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ عدالت سے رجوع کرے گی۔ 
یعنی اس بار بھی گھر جا کے شکیت لاواں گی کا راگ الاپا ہے، کوئی بھی معاملہ ہو، وہ گھر پہنچ جاتی تھی اور ”شکیت“لگا دیتی تھی پھر حسب منشا ازالہ ہوہی جاتا تھا۔ لیکن بے خبری، کی حالت کچھ ایسی ہے کہ اسے خبر ہی نہ ہو سکی کہ گھر والا اس بیج بدل گیا ہے۔ اب فیصلہ آئین کے مطابق ہو گا۔ آئین کے مطابق یعنی پی ٹی آئی کی مرضی کے ”عدم مطابق“۔ بعدازاں جو دہائی اس نے دینی ہے، وہ بعدازاں دیکھی یا سنی جا سکے گی۔ 
بظاہر ، لگتا ہے، پی ٹی آئی نے الیکشن سے راہ فرار تاک لی ہے، اب دوڑ لگانے کا انتظار ہے۔ 
____________
نیب میں کیس کھل گئے، رونق میلے کے لیے نیا ہنگامہ مل گیا۔ کچھ لوگوں نے من پسند امیدیں باندھ لیں۔ ارے بھائی، جوش میں آنے کی یا ڈرنے ڈرانے کی ضرورت کیا ہے، سنیئے۔ اس بار نیب کی سربراہی کسی صدائے ”بوسہ بگیرم“ کے پاس نہیں ہے۔ سب سے اوپر باجوا ، صاحب نہیں ہیں، ان کے نیچے فیض نہیں ہیں، ان کے نیچے خان نہیں ہیں، ان کے نیچے ثاقب نثار نہیں ہیں، ان کے نیچے نگران جج نہیں ہے۔ ایسے پیغامات نہیں کر پا رہے کہ فلاں کو رگڑا لگاتا ہے، فلاں کو زیادہ اور فلاں کو بہت رگڑا لگانا ہے۔ جو کیس جھوٹا ہو گا، اڑ جائے گا، جو صحیح ملزم ہو گا، پکڑا جائے گا۔ 
____________
حافظ صاحب کے ایکشن سے ڈالر نیچے آتا آتا 291 روپے پر آ گیا، مزید 
نیچے آئے گا۔ یہی صورت حال رہی تو حقیقی آزادی کیسے ملے گی یا خدا!

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...