محمد معین
اس سے پہلے افواہوں کا بازار گرم رہا، کھلاڑیوں کے مابین اختلافات کی خبریں آتی رہیں، ڈریسنگ روم میں ہونے والی بات چیت اور اختلافات رائے کو مختلف انداز میں پیش کیا جاتا رہا، سلیکشن کے حوالے سے بہت باتیں ہوتی رہیں لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے مکمل خاموشی تھی۔ پی سی بی نے کسی بھی معاملے پر نہ تو ردعمل دیا نہ ہی متنازع معاملات میں وضاحت پیش کی گئی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی اس طویل خاموشی کی وجہ سے صرف ایشیا کپ کے چند میچز ہارنے والی ٹیم پر دباو¿ بڑھتا چلا گیا۔ کھلاڑیوں کی ٹیم میں جگہ مشکوک بنتی رہی، شاداب خان کی نائب کپتانی پر سوالات ہوتے رہے۔ فخر زمان ہوں گے یا نہیں ہوں گے، اسامہ میر سکواڈ کا حصہ ہوں گے یا نہیں، زمان خان کو اچھی کارکردگی اور باصلاحیت ہونے کے باوجود موقع ملے گا یا نہیں، کیا حسن علی ورلڈکپ کے لیے ٹیم میں واپس آئیں گے یا پھر وسیم جونیئر ہی سکواڈ کا حصہ رہیں گے۔ ان حالات میں قومی ٹیم کا کوچنگ سٹاف بھی نشانے پر رہا۔ قومی ٹیم کے ڈائریکٹر اور ملک میں آن لائن کوچنگ کا بےمعنی فلسفہ پیش کرنے والے مکی آرتھر کی ذمہ داریوں پر بھی سوالات ہوتے رہے۔ پاکستان ٹیم کے کپتان بابر اعظم اور ان کے ساتھی کھلاڑیوں کے مابین اختلافات کی خبریں مسلسل سامنے آتی رہیں لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے مکمل خاموشی رہی۔ یہ وہی بورڈ ہے کہ ذکا اشرف کے ہنسنے، مسکرانے، چلنے پھرنے اور معمولی سے معمولی ملاقاتوں کی تصاویر اور غیر ضروری معاملات میں مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین کے بیانات جاری کرنے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کرتا لیکن ایشیا کپ میں قومی ٹیم کی ناکامی کے بعد ملک بھر میں پاکستان کرکٹ ٹیم افواہوں کے زیر اثر رہی۔ اس دوران سینئر کرکٹرز وکٹ کیپر بلے باز سرفراز احمد فاسٹ باو¿لر محمد عامر اور آل راو¿نڈر عماد وسیم کی قومی ٹیم میں شمولیت کا مطالبہ بھی ہوتا رہا، کہیں ارشد اقبال، کہیں شاہنواز دھانی تو کہیں عامر جمال کا نام گردش کرتا رہا۔ کچھ خیر خواہ شاہنواز دہانی کو بھی ورلڈکپ سکواڈ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ سکواڈ کا اعلان ہوتے ہی افواہیں دم توڑ گئیں۔ گذشتہ روز پاکستان کے ورلڈکپ سکواڈ کا اعلان ہوا جب کہ جمعرات کو ٹیکنیکل کرکٹ کمیٹی کے رکن سابق کپتان محمد حفیظ مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین ذکا اشرف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ٹیکنیکل کمیٹی سے الگ ہو گئے۔ محمد حفیظ کی ٹیکنیکل کمیٹی سے علیحدگی کو بھی متنازع کہا جا رہا ہے۔
ورلڈکپ کے لیے چیف سلیکٹر انضمام الحق، کوچنگ سٹاف اور پاکستان ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے تجربہ کار اور ایسے کھلاڑیوں پر اعتماد برقرار رکھا جن کے ساتھ وہ مسلسل کھیلتے ہوئے آ رہے تھے انہوں نے کچھ بھی غیر معمولی کرنے کے بجائے آزمائے ہوئے کرکٹرز کے ساتھ ہی عالمی کپ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ یہ وہ ٹیم ہے جسے اس بڑے ٹورنامنٹ کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔
پاکستان کے لیے بڑا دھچکہ نسیم شاہ کی عدم موجودگی ہے ان کے ان فٹ ہونے سے حسن علی کو ورلڈکپ سکواڈ میں شامل ہونے کا موقع ملا ہے۔ نسیم شاہ کے ان فٹ ہونے سے فاسٹ باو¿لنگ کامبی نیشن یقینا متاثر ہوا ہے۔ وہ شاہین آفریدی کے ساتھ ابتدائی اوورز بہت اچھے کر رہے تھے۔ حسن علی کے لیے نسیم شاہ کی کمی کو پورا آسان نہیں ہو گا۔ اسی طرح وسیم جونیئر کی سلیکشن پر بھی سوالیہ نشان یے زمان خان ہر لحاظ سے ان سے بہتر ہیں۔ ان کا ٹمپرامنٹ بہت شاندار ہے۔ وہ مشکل وقت میں دباو¿ کو برداشت کرنے کی خداداد صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود سلیکشن کمیٹی کے سربراہ انضمام الحق، ٹیم مینجمنٹ اور کپتان بابر اعظم نے زمان خان کے بجائے وسیم جونیئر پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ سکواڈ کا اعلان ہو چکا ہے ان کھلاڑیوں کے ساتھ قوم کی دعائیں ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ٹیم ایشیا کپ کی غلطیوں سے کچھ سیکھتی ہے یا غلطیاں دہرائی جاتی ہیں۔ پاکستان کے پلیئرز باصلاحیت ہیں لیکن ٹیم گراونڈ میں فیصلوں اور حکمت عملی کے اعتبار سے خاصی کمزور ہے۔ ورلڈ کپ پانچ اکتوبر سے انیس نومبر تک انڈیا میں کھیلا جائے گا۔ پاکستانی ٹیم میں بابراعظم ( کپتان ) شاداب خان ( نائب کپتان ) عبداللہ شفیق۔ فخرزمان۔ حارث رو¿ف۔ حسن علی۔ افتخار احمد۔ امام الحق۔ محمد نواز۔ محمد رضوان ( وکٹ کیپر ) محمد وسیم جونیئر۔ سلمان علی آغا۔ سعود شکیل شاہین شاہ آفریدی اور اسامہ میر شامل ہیں۔ٹریولنگ ریزرو میں محمد حارث ( وکٹ کیپر ) ابرار احمد اور زمان خان کا نام ہے۔
ورلڈ کپ سے قبل پاکستانی ٹیم 29 ستمبر کو نیوزی لینڈ اور تین اکتوبر کو آسٹریلیا کے خلاف دو وارم اپ میچز کھیلے گی۔ ورلڈ کپ میں اپنا پہلا میچ چھ اکتوبر کو نیدر لینڈ کے خلاف کھیلے گی۔ پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کا آغاز عالمی نمبر ایک رینکنگ کی ٹیم کی حیثیت سے کرے گی۔ پاکستان نے 1992میں ورلڈ کپ جیتا ہے جبکہ 1999 میں اس نے فائنل کھیلا تھا۔اس کے علاوہ پاکستان چار مرتبہ 1979۔ 1983۔1987۔ اور2011 میں سیمی فائنل بھی کھیل چکا ہے۔