وفاق کی تمام اکائیوں کے مابین اتحاد کی ضرورت

Sep 23, 2024

نصرت جاوید

کمرے میں لگا اے سی بند کردوں توحبس سانس نہیں لینے دیتا۔ چلائوں تو ہڈیوں میں درد ہونے لگتا ہے اور یہ سلسلہ اسلام آباد میں میرے ساتھ گزشتہ پانچ دنوں سے جاری ہے۔ اسی باعث جمعرات کی صبح اٹھا تو جسم میں درد کے ساتھ بخار بھی تھا اور اس کی وجہ سے کالم نہ لکھ پایا۔ جمعہ کی صبح اسے اخبار اور ’نوائے وقت‘ کے ویب ایڈیشن سے غائب ہوا دیکھ کر کئی مہربان پریشان ہوگئے۔ میری خطا نہیں تھی اس کے باوجود پرخلوص عاجزی سے معافی کا طلب گار ہوں۔
اتوار کی صبح قلم اٹھاتے ہی ذہن میں خیال یہ آیا کہ ملکی سیاست کے دیرینہ شاہد سے قارئین کی اکثریت ہفتے کے دن لاہور میں تحریک انصاف کے زیر اہتمام ہوئے جلسے کے بارے میں تبصرہ آرائی کی خواہش مند ہوگی۔ مذکورہ جلسے سے کہیں زیادہ مگر مجھے یہ سوال پریشان کیے ہوئے ہے کہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور جب بھی اسلام آباد یا پنجاب میں تحریک انصاف کے کسی جلسے میں شرکت کے لیے اٹک پار کرتے ہیں تو سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوئے پیغامات کے سیلاب کے ذریعے یہ پیغام کیوں اجاگر ہوتا ہے کہ ’محمود غزنوی‘ سومنات فتح کرنے کی ایک اور مہم پر روانہ ہورہے ہیں۔
تحریک انصاف کے اندازِ سیاست کا شدید ناقدرہا ہوں۔ اس کے باوجود یہ حقیقت کھلے دل سے تسلیم کرتا ہوں کہ ایک طویل وقفے کے بعد کرکٹ سے سیاست میں آئے عمران خان نے تحریک انصاف کو ایک ملک گیر سیاسی جماعت بنادیا ہے۔ ان کے مخالف اگرچہ تحریک انصاف کو سیاسی جماعت نہیں بلکہ اس جماعت کے بانی کے مداحین کا گروہ شمار کرتے ہیں۔ ’مداحین‘ کی عقیدت کا ذکر ہاتھ باندھ کر یہ سوال اٹھانے کو مجبور کردیتا ہے کہ وطن عزیز کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی تو ایسا ہی معاملہ رہا ہے۔
اپریل 1993ء میں ریاست کے دائمی اداروں کے ’بابا‘ غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت کو آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت ملے اختیارات کی بدولت برطرف کیا تو 1980ء کی دہائی سے نام نہاد ڈیپ سٹیٹ کے ’چہیتے‘ گردانے نوازشریف ’باغی‘ ہوگئے۔ نسیم حسن شاہ کے سپریم کورٹ نے ان کی حکومت بحال کردی تب بھی انھیں’کاکڑ فارمولہ‘ کی بدولت استعفیٰ دینا پڑا۔ اس کے بعد انتخابات ہوئے تو محترمہ بے نظیربھٹو ایک بار پھر وزیر اعظم کے منصب پر براجمان ہوگیں۔ اس حکومت کے مینڈیٹ کو ناکام بنانے کے لیے نواز شریف جلسے جلوس اور ٹرین مارچ وغیرہ کرتے رہے اور بالآخر 1996ء میں پیپلز پارٹی ہی کے بنائے صدر فاروق لغاری کو محترمہ کی دوسری حکومت برطرف کرنے کو مجبور کردیا۔
اس کے بعد ہوئے انتخابات کی بدولت وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے تو بے تحاشا اقدامات کی بدولت اپنے مداحین کے دل موہ لیے۔ بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا بس پر بیٹھ کر لاہور آنا اور اس شہر میں قائم مینارِ پاکستان جاکر ایک حوالے سے دو قومی نظریہ کو تسلیم کرنا ایسے اقدامات میں شامل تھا۔ بعدازاں ایٹمی دھماکے بھی ان کی مقبولیت کا سبب ہوئے۔ کارگل نے مگر گیم پلٹادی اور جنرل مشرف کے لگائے مارشل لاء نے انھیں فارغ کردیا۔ مذکورہ مارشل لاء کی مزاحمت ان کی مزید مقبولیت کا سبب ہوئی۔
پیپلز پارٹی بھی اپنے قیام سے ایک کرشمہ ساز-ذوالفقار علی بھٹو- کی انتہائی متحرک اور تاریخ ساز شخصیت کی وجہ سے لوگوں کی بے پناہ تعداد کے دلوں میں اپنی جگہ بناپائی تھی۔ ان کے عدالتی قتل کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کی مزاحمتی سیاست کو زندہ رکھا اور بالآخر خود بھی انتہا پسندوں کے ہاتھوں شہید ہوگئیں۔
عمران خان سے سواختلاف رکھتے ہوئے بھی آپ کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اپنے مداحین کو وہ دورِ حاضر میں مزاحمت کے نمائندہ نظر آتے ہیں اور انھیں کسی ایک صوبے یا نسلی گروہ سے مختص نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے حامی فقط خیبرپختونخوا ہی نہیں بلکہ پنجاب،سندھ اور بلوچستان میں بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں اور 8 فروری 2024ء کے دن ہوئے انتخابات نے اس حقیقت کو اعدادوشمار کے ذریعے ثابت کردیا ہے۔ مذکورہ بالا تناظرکے ہوتے ہوئے میں نہایت فکر مندی سے یہ جاننے کی کوشش میں لگارہتا ہوں کہ علی امین گنڈاپور کے ’مولا جٹ‘ مارکہ رویے کو ایسی ’دلاوری‘ دکھاکر کیوں پیش کیا جارہا ہے جو وسطی ایشیاء سے ہمارے خطے پر حملہ آور ہوئے سلاطین سے مختص تھی۔
چند ہفتے قبل تحریک انصاف نے اسلام آباد کے نواحی سنگ جانی میں بھی ایک جلسے کا اہتمام کیا تھا۔ اس جلسے سے گھبرا کر اسلام آباد کی پولیس اور انتظامیہ نے اس شہر کو کنٹینروں سے سیل کردیا تھا۔ سنگ جانی کی راہ میں کھڑی رکاوٹوں کو تاہم علی امین گنڈاپور کے ہمراہ آئے ’لشکر‘ میں موجود کرینوں وغیرہ کے ذریعے مسمار کردیا گیا۔ یاد رہے کہ جو کرینیں استعمال ہوئیں وہ تحریک انصاف کے فنڈز سے کرایے پر نہیں لی گئی تھیں۔ وہ میرے اور آپ کے ٹیکسوں سے پاکستان کے ایک صوبے میں ترقیاتی کاموں میں استعمال کے لیے خریدی گئی تھیں۔ سنگ جانی کی راہ میں لگائی رکاوٹوں کی قیمت بھی میرے اور آپ کے دیے ٹیکسوں سے ادا ہوئی تھی۔ سوشل میڈیا پر علی امین گنڈا پور کو ’مولا جٹ‘ بنادیکھ کر چسکااٹھاتے ہوئے ہماری اکثریت یہ سوال ہی نہیں اٹھاتی کہ میں اور آپ ریاست پاکستان کو جو ناقابل برداشت ٹیکس ادا کیے چلے جارہے ہیں ان کا مصرف کیا ایک صوبائی حکومت کو دوسری حکومت سے ’ٹکر‘ لینے کے قابل بنانا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان، یاد رہے کہ ایک فیڈریشن ہے اس کے ہر شہری کو ہمارا تحریری آئین یہ حق دیتا ہے کہ ہمارے ایک شہر سے دوسرے شہر بلاخوف وخطرہ سفر کرے۔ رزق کے حصول یا بہتر کاروبار کی خاطر پاکستان کے کسی ایک صوبے سے دوسرے صوبے منتقل ہونابھی ہم شہریوں کا بنیادی حق ہے جس پر عملدرآمد یقینی بنانا ریاست وحکومت کی ذمہ داری ہے۔
اسی طرح ہمارا آئین سیاسی جماعتوں کو مختلف شہروں میں جلسے جلوسوں کا حق بھی فراہم کرتا ہے۔ ان کے انعقاد کے لیے سیاسی جماعتوں کی باہمی مشاورت سے سب کے لیے قابل قبول قواعد وضوابط تشکیل دیے جاسکتے ہیں۔ اندھی نفرت وعقیدت ہمیں بحیثیت قوم مگراب دیوانگی کی جانب دھکیلنا شروع ہوگئی ہے۔ علی امین گنڈاپور کے ہمراہ آنے والوں میں سے کچھ افراد کے سوشل میڈیا کے لیے ریکارڈ ہوئے کلمات انتہائی اشتعال انگیز تھے۔ ان کے جواب میں پنجاب کو بھی ’ناقابل تسخیر‘ دکھانے کے دعوے ہوئے ہیں۔ ان دونوں رویوں کی شدید مذمت ومزاحمت درکار ہے۔ ہمارے وفاق کی اکائیوں کے مابین چند بنیادی نکات پر کامل یگانگت ہی پاکستان کی بقاء اور خوش حالی کو یقینی بناسکتی ہے۔ اس کے سوا جو بھی حماقتیں ہوں گی وہ پاکستان کو دورِ حاضر کے ’بلقان‘ میں بدل ڈالیں گی۔ ’بلقان‘ کیا ہے؟ اس کا جواب جاننے کے لیے تھوڑی دیر کو فیس بک وغیرہ بھلاکر گوگل کے سرچ انجن سے رجوع کرلیں۔

مزیدخبریں