بینک پنشنر کا بھی تو ہے ملک کی بنک انڈسٹری نے ہمیشہ عوامی خدمت کے جذبے کے تحت ملکی ترقی اور مالی خدمات میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے بدقسمتی سے ایک عرصے سے ہمارے ملک میں حکومتی اور سیاسی معاملات ابھی تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکے اور مسائل کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک کی معیشت بھی بہت سے مسائل کا شکار ہے ایک وقت تھا کہ بنک ملازمین کی تعداد دیگر محکموں کی طرح خاصی تھی اور ان کی تنخواہیں اور مراعات بھی اطمنیان بخش تھیں لیکن آہستہ آہستہ ڈاؤن سائزنگ رائٹ سائزنگ اور جبری گولڈن شیک ھینڈ کے ذریعے یہ تعداد کم ہوتی گئی ایک وقت میں بینکوں میں یونین سازی کا بھی بہت رجحان تھا پھر وہ سلسلہ بھی بتدریج کم ہوا اور انتظامیہ کی طرف سے اصل توجہ کسٹمر سروس پہ دی جانے لگی ملازمین کسی بھی شعبے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے صورت میں یا دیگر مراعات کی صورت میں جو کچھ ملتا ہے ان پہ ان کے بچوں کے مستقبل کا دارومدار ہوتا ہے حبیب بینک پاکستان کا ایک بڑا بینک ہے اور عالمی سطح پر بھی اس کی بہت سی فعال برانچیں ہیں اور عالمی سطح پر اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے ایک عرصے سے بینکوں میں پیشن کے کافی مسائل نے سر اٹھایا ہے اور ابھی حال ہی میں پاکستان کے ایک بڑے قومی بینک نیشنل بینک کے ملازمین جو ایک عرصے سے عدالتوں کے چکر لگا رہے تھے ملک کی اعلی میں ان کی شنوائی ہوئی اور سپریم کورٹ نے پنشنر کا ایک عرصے سے لٹکا ہوا کیس بااحسن خوبی نپٹایا اور یہ فیصلہ دیا کہ دیگر اداروں کی طرح نیشنل بینک کے ملازمین کو بھی 70 فیصد پنشن دی جائے گی جس کا اطلاق بھی ہو چکا ہے بالکل اسی طرح حبیب بینک اور چند دیگر بینکوں کا معاملہ ابھی تک چل رہا ہے حبیب بینک کے بھی پانچ ہزار سے زائد پینشنرز ایک عرصے سے اپنے مسائل کیلئے سرکردہ ہیں تفصیلی اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ 2005 میں بینک نے اپنے طور بنیادی تنخواہ کو بڑھاتے ہوئے پنشن کو 2005 کی بنیادی تنخواہ سے منسلک کر دیا جس کی وجہ سے بعد میں آنیوالے سالوں میں ریٹائر ہونے والوں کو برائے نام پنشن دی جا رہی ہے جس کو آپ اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی کہہ سکتے ہیں لہذا اب جبکہ نیشنل بینک کے ملازمین کو 70 فیصد کے حساب سے پنشن دی جا رہی ہے تو دیگر بینکوں کے پنشنرز کا بھی کہنا ہے کہ ان کو بھی نیشنل بینک کی طرح 70 فیصد پینشن کا اجراء کیا جائے جیسے کہ بہت سے اداروں میں بھی یہ 70 فی صد پنشن کا اطلاق ہے اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ ڈھائی سال سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں HBL کے پینشنرز کا معاملہ لٹکا ہوا ہے جس پر ابھی پیشیاں ہو رہی ہیں اور بینک کے ریٹائرڈ پنشنرز ابھی تک کسی مثبت فیصلے کے منتظر ہیں جبکہ ایک طرف عدلیہ میں اصلاحات کا سلسلہ بھی شروع ہے ایسے میں بینک ملازمین بجا طور پہ توقع کر سکتے ہیں کہ ان کے پنشن کے کیس کو بھی جلد سنا جائے گا اور اس کا میرٹ پہ فیصلہ کرتے ہوئے بینک کے ملازمین کو بھی 70 فیصد پنشن اور بقایاجات بھی دیے جائیں گے کیونکہ یہ صرف پانچ ہزار سے زائد ملازمین کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ پانچ ہزار سے زائد خاندان اور گھرانے بھی اس سے منسلک ہیں عدالتوں میں جہاں ائے روز کچھ طبقات کے مقدمات فوری طور پہ سننے جا رہے ہیں اور انکے فیصلے بھی کیے جا رہے ہیں اور ان کو ریلیف بھی مل رہا ہے تو ایسے میں پیشنرز کا معاملہ التوا میں ڈالنا کسی بھی صورت مناسب نہیں کیونکہ جب سے پنشرز نے اپنے ان مطالبات کیلئے آواز اٹھائی ہے بہت سے پنشرز راہی عدم بھی ہو چکے ہیں لہذا ضروری ہے کہ اس ضمن میں آئندہ ہونے والی پیشیوں میں اس اہم مسئلے کا حل نکالا جا سکے حبیب بینک ایک ایسا پرانا بینک ہے جس کا یہ سلوگن بہت مشہور ہوا کہ حبیب بینک میرا بھی تو ہے کیونکہ بچوں سے لے کے بڑوں تک کا اس بینک سے کل بھی اور آ ج بھی قلبی اور مالی تعلق رہا ہے لہذا بینک کے پنشنرز بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ بینک ان کا بھی تو ہے موجودہ حکومت میں اس بینک کے سابق صدر محمد اورنگزیب نے بینک کی رینکنگ کو بہت بہتر کیا اور اسے عالمی معیار کا بینک بنایا ان کی اسی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں حکومت میں وزیر خزانہ کا عہدہ دیا گیا ہے اب بینک کے موجودہ صدر ناصر سلیم بھی بینک کو مزید بہتر سے بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہیں جہاں بینک کی سروسز اور خدمات کو بہتر بنانے اور بینک کا پرافٹ بہتر بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں وہاں ملازمین کیلئے بھی مراعات اور پنشنرز کو بھی ان کا حق دینا بہت ضروری ہے کیونکہ ملازمین اور پنشنرز نے اپنی عمر کا ایک حصہ بینک کیلئے وقف کیا ہوتا ہے اور جب انہیں اپنے لیے اور اپنے بچوں کیلئے ضروریات زندگی کی اشد ضرورت ہوتی ہے ایسے میں بینک کو بھی چاہیے کہ وہ ان کے مالی مفادات کا خیال کریں اور انکی دعائیں بھی لیں اس وقت ہنشنرز کے حقوق کیلئے اخلاقی مالی اور عدالتی جنگ لڑنے والے سابق افسران میں ملتان سے فقیر بخش پشاور سے عبدالصمد اور دیگر 188 کیس نمبر۔ 1322/ 2022 wp پٹیشنرز پیش پیش ہیں اور اپنی ان کاوشوں کے ساتھ ساتھ وہ توقع رکھتے ہیں کہ بینک کے دیگر پنشنرز بھی اپنے حقوق کیلئے انکے شانہ بشانہ چلیں گے اور بینک انتظامیہ بھی اپنے سابقہ ملازمین کا خیال رکھتے ہوئے انکے اس موقف کو تسلیم کرے گی اور آنے والے دنوں میں بینک کے پنشنرز کی پٹیشن پر فوری فیصلہ دیتے ہوئے نیشنل بینک اور دیگر اداروں کی طرح ان کو بھی 70 فیصد پنشن دی جائے کیونکہ نیشنل بنک کے فیصلے والے اصول اور قواعد و ضوابط اس بنک پر بھی لگتے ہیں نئے قوانین بنک کے پرائیویٹ ہونے کے بعد کے ملازمین پر تو لاگو ہو سکتے ہیں مگر پرانوں پر نہیں لہذا بنک ملازمین کا یہ دیرینہ مسلہ حل کر کے ہنشنرز کو اس قابل کیا جا سکے کہ وہ اس مہنگائی کے دور میں اپنے بچوں کے اخراجات پورے کر سکیں اور باوقار طریقے سے باقی زندگی گزار سکیں ۔
گل پھینکیں ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی