پنشنرز کے مسائل

Sep 23, 2024

اظہر سلیم مجوکہ

 بینک پنشنر کا بھی تو ہے ملک کی بنک انڈسٹری نے ہمیشہ عوامی خدمت کے جذبے کے تحت ملکی ترقی اور مالی خدمات میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے بدقسمتی سے ایک عرصے سے ہمارے ملک میں حکومتی اور سیاسی معاملات ابھی تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکے اور مسائل کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک کی معیشت بھی بہت سے مسائل کا شکار ہے ایک وقت تھا کہ بنک ملازمین کی تعداد دیگر محکموں کی طرح خاصی تھی اور ان کی تنخواہیں اور مراعات بھی اطمنیان بخش تھیں لیکن آہستہ آہستہ ڈاؤن سائزنگ رائٹ سائزنگ اور جبری گولڈن شیک ھینڈ کے ذریعے یہ تعداد کم ہوتی گئی ایک وقت میں بینکوں میں یونین سازی کا بھی بہت رجحان تھا پھر وہ سلسلہ بھی بتدریج کم ہوا اور انتظامیہ کی طرف سے اصل توجہ کسٹمر سروس پہ دی جانے لگی ملازمین کسی بھی شعبے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے صورت میں یا دیگر مراعات کی صورت میں جو کچھ ملتا ہے ان پہ ان کے بچوں کے مستقبل کا دارومدار ہوتا ہے حبیب بینک پاکستان کا ایک بڑا بینک ہے اور عالمی سطح پر بھی اس کی بہت سی فعال برانچیں ہیں اور عالمی سطح پر اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے ایک عرصے سے بینکوں میں پیشن کے کافی مسائل نے سر اٹھایا ہے اور ابھی حال ہی میں پاکستان کے ایک بڑے قومی بینک نیشنل بینک کے ملازمین جو ایک عرصے سے عدالتوں کے چکر لگا رہے تھے ملک کی اعلی میں ان کی شنوائی ہوئی اور سپریم کورٹ نے پنشنر کا ایک عرصے سے لٹکا ہوا کیس بااحسن خوبی نپٹایا اور یہ فیصلہ دیا کہ دیگر اداروں کی طرح نیشنل بینک کے ملازمین کو بھی 70 فیصد پنشن دی جائے گی جس کا اطلاق بھی ہو چکا ہے بالکل اسی طرح حبیب بینک اور چند دیگر بینکوں کا معاملہ ابھی تک چل رہا ہے حبیب بینک کے بھی پانچ ہزار سے زائد پینشنرز ایک عرصے سے اپنے مسائل کیلئے سرکردہ ہیں تفصیلی اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ 2005 میں بینک نے اپنے طور بنیادی تنخواہ کو بڑھاتے ہوئے پنشن کو 2005 کی بنیادی تنخواہ سے منسلک کر دیا جس کی وجہ سے بعد میں آنیوالے سالوں میں ریٹائر ہونے والوں کو برائے نام پنشن دی جا رہی ہے جس کو آپ اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی کہہ سکتے ہیں لہذا اب جبکہ نیشنل بینک کے ملازمین کو 70 فیصد کے حساب سے پنشن دی جا رہی ہے تو دیگر بینکوں کے پنشنرز کا بھی کہنا ہے کہ ان کو بھی نیشنل بینک کی طرح 70 فیصد پینشن کا اجراء کیا جائے جیسے کہ بہت سے  اداروں میں بھی یہ 70 فی صد پنشن کا اطلاق ہے اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ ڈھائی سال سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں  HBL کے پینشنرز کا معاملہ لٹکا ہوا ہے جس پر ابھی پیشیاں ہو رہی ہیں اور بینک کے ریٹائرڈ پنشنرز ابھی تک کسی مثبت فیصلے کے منتظر ہیں جبکہ ایک طرف عدلیہ میں اصلاحات کا سلسلہ بھی شروع ہے ایسے میں بینک ملازمین بجا طور پہ توقع کر سکتے ہیں کہ ان کے پنشن کے کیس کو بھی جلد سنا جائے گا اور اس کا میرٹ پہ فیصلہ کرتے ہوئے بینک کے ملازمین کو بھی 70 فیصد پنشن اور بقایاجات بھی دیے جائیں گے کیونکہ یہ صرف پانچ ہزار سے زائد ملازمین کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ پانچ ہزار سے زائد خاندان اور گھرانے بھی اس سے منسلک ہیں عدالتوں میں جہاں ائے روز کچھ طبقات کے مقدمات فوری طور پہ سننے جا رہے ہیں اور انکے فیصلے بھی کیے جا رہے ہیں اور ان کو ریلیف بھی مل رہا ہے تو ایسے میں پیشنرز کا معاملہ التوا میں ڈالنا کسی بھی صورت مناسب نہیں کیونکہ جب سے پنشرز نے اپنے ان مطالبات کیلئے آواز اٹھائی ہے بہت سے پنشرز راہی عدم بھی ہو چکے ہیں لہذا ضروری ہے کہ اس ضمن میں آئندہ ہونے والی پیشیوں میں اس اہم مسئلے کا حل نکالا جا سکے حبیب بینک ایک ایسا پرانا بینک ہے جس کا یہ سلوگن بہت مشہور ہوا کہ حبیب بینک میرا بھی تو ہے کیونکہ بچوں سے لے کے بڑوں تک کا اس بینک سے کل بھی اور آ ج بھی قلبی اور مالی تعلق رہا ہے لہذا بینک کے پنشنرز بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ بینک ان کا بھی تو ہے موجودہ حکومت میں اس بینک کے سابق صدر محمد اورنگزیب نے بینک کی رینکنگ کو بہت بہتر کیا اور اسے عالمی معیار کا بینک بنایا ان کی اسی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں حکومت میں وزیر خزانہ کا عہدہ دیا گیا ہے اب بینک کے موجودہ صدر ناصر سلیم بھی بینک کو مزید بہتر سے بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہیں جہاں بینک کی سروسز اور خدمات کو بہتر بنانے اور بینک کا پرافٹ بہتر بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں وہاں ملازمین کیلئے بھی مراعات اور پنشنرز کو بھی ان کا حق دینا بہت ضروری ہے کیونکہ ملازمین اور پنشنرز نے اپنی عمر کا ایک حصہ بینک کیلئے وقف کیا ہوتا ہے اور جب انہیں اپنے لیے اور اپنے بچوں کیلئے ضروریات زندگی کی اشد ضرورت ہوتی ہے ایسے میں بینک کو بھی چاہیے کہ وہ ان کے مالی مفادات کا خیال کریں اور انکی دعائیں بھی لیں اس وقت ہنشنرز کے حقوق کیلئے اخلاقی مالی اور عدالتی جنگ لڑنے والے سابق افسران میں ملتان سے فقیر بخش  پشاور سے عبدالصمد اور دیگر 188 کیس نمبر۔ 1322/ 2022 wp پٹیشنرز پیش پیش ہیں اور اپنی ان کاوشوں کے ساتھ ساتھ وہ توقع رکھتے ہیں کہ بینک کے دیگر پنشنرز بھی اپنے حقوق کیلئے انکے شانہ بشانہ چلیں گے اور بینک انتظامیہ بھی اپنے سابقہ ملازمین کا خیال رکھتے ہوئے انکے اس موقف کو تسلیم کرے گی اور آنے والے دنوں میں بینک کے پنشنرز کی پٹیشن پر فوری فیصلہ دیتے ہوئے نیشنل بینک اور دیگر اداروں کی طرح ان کو بھی 70 فیصد پنشن دی جائے کیونکہ نیشنل بنک کے فیصلے والے اصول اور قواعد و ضوابط اس بنک پر بھی لگتے ہیں نئے قوانین بنک کے پرائیویٹ ہونے کے بعد کے ملازمین پر تو لاگو ہو سکتے ہیں مگر پرانوں پر نہیں لہذا بنک ملازمین کا یہ دیرینہ مسلہ حل کر کے ہنشنرز کو اس قابل کیا جا سکے کہ وہ اس مہنگائی کے دور میں اپنے بچوں کے اخراجات پورے کر سکیں اور باوقار طریقے سے باقی زندگی گزار سکیں ۔
گل پھینکیں ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی 
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی

مزیدخبریں