میرے دوست رانا صاحب بہت دلچسپ اور بڑے زندہ دل انسان ہیں۔ اُن کی پہلی خوبی جو مجھے بہت پسند آتی ہے وہ اُن کا موڈ ہے۔ ہر وقت خوش باش پھر رہے ہوتے ہیں۔زندگی کے ہر مسئلے پر اُن کے بڑے نپے تلے ویوز ہیں جو ہم دوستوں کو بھی پسند آتے ہیں۔ میں خصوصی طور پر اُن کے سیاسی نظریات سے بہت متاثر ہوتا ہوں۔ اُن سے بجلی کا بل جب پورا نہیں ہوتا یا بازار سے مہنگی سبزی /فروٹ نہیں خرید سکتاتو نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کے آگے گڑ گڑا کر سیاستدانوں کے لئے راہِ ہدایت کی دعا کرتا ہے۔ اُسے یقین ہے کہ کسی نہ کسی دن اُنکی دعا ضرور قبول ہو گی۔ اُسے سیاستدانوں سے دو بڑی شکایات ہیں۔ اوّل: یہ کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے جوش میں یہ لوگ وطن کے مفادات بھی پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ اپنے مخالفین کو بھارتی دشمنوں سے بھی زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہر سیاستدان ہر حال میں ہمیشہ اقتدار میں رہنا چاہتا ہے چاہے خدانخواستہ ملک ہی کیوں نہ ٹوٹ جائے۔ اِسی کوشش اور اقتدار کی ہوس میں ان لوگوں نے ہمارے پیارے وطن کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔ اِسے دوسری بڑی شکایت یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان مسائل پیدا کرنے کے ماہر ہیں لیکن مسائل حل کرنے سے مکمل طور پر عاری ہیں اور یہ مسئلہ آج سے نہیں بلکہ جب سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے اُس وقت سے لیکر آج تک یہی روایت چلی آرہی ہے۔ میں ذاتی طور پر مکمل طور پر رانا صاحب سے متفق ہوں۔ آئیں ذرا اس شکایت کا جائزہ لیتے ہیں۔
قائداعظم ایک عظیم انسان تھے جس نے ہندو نفسیات کو پوری طرح سمجھا اور ہم مذہبوں کے لئے علیحدہ ملک حاصل کیا لیکن قائد کے لئے ہر مسئلے کو حل کرنا ممکن نہ تھا ۔ یہ کام اُن کے ساتھی سیاستدانوں کا فرض تھا جو بقول قائد سب کے سب کھوٹے سکے ثابت ہوئے۔ اُس کے بعد سے پاکستان کی تاریخ ایک مسلسل ناکامی کی تاریخ ہے۔ کہنے کو تو رستم وسہراب سے بھی بڑے پہلوان میدان میں موجود تھے لیکن پاکستان کو کوئی بھی نہ سنبھال سکا۔ ہم نے پہلی بڑی چوٹ اُس وقت کھائی جب عیار دشمن نے مل ملا کر گورداس پور اور فیروز پور ناجائز طور پر ہتھیا لئے حالانکہ یہ دونوں اضلاع مکمل طور پر پاکستان کا حصہ تھے ۔اس فیصلے سے ہم دریائے ستلج بھی کھو بیٹھے اور پنجاب اور سندھ کو سیراب کرنے والے بہترین نہری نظام سے بھی محروم ہو گئے۔ اُس وقت ہمیں ایک مضبوط ، باشعور اوردلیر لیڈر شپ کی ضرورت تھی جو مضبوط ڈپلومیسی کے ذریعے اپنا حق لے سکتی مگر افسوس ہماری لیڈر شپ عہدوں کے چکر میں پڑ گئی اور مضبوط بھارتی لیڈر شپ نے ہمارے سارے حقوق آہستہ آہستہ غصب کر لئے ۔ اس کے بعد فوج کے لئے ہتھیاروں کی تقسیم کا مسئلہ آیا تو وہاں بھی بھارت نے ہمیں ہمارا پورا حصہ نہ دیا اور یہاں بھی ہم ناکام رہے ۔ پھر بھارت نے کشمیر ، جونا گڑھ اور حیدرآباد پر قبضہ کرلیا۔ تقسیم ہند کے فیصلے کے مطابق یہ ریاستیں پاکستان کا حصہ بننا چاہیں تھیں لیکن بھارت نے ’’ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ‘‘پر عمل کر کے قبضہ کر لیا۔ یہاں بھی ہماری ڈپلومیسی اور لیڈرشپ ناکام رہیں۔ بھارت نے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں استصواب رائے سے حل کرنے کا وعدہ کیالیکن بعد میں منحرف ہو گیا۔یہ مسئلہ پچھلے 77سالوں سے اقوام متحدہ میں موجود ہے۔ اس مسئلے کو بھی ہم آج تک حل نہیں کراسکے۔
روزِ اول سے بھارت نے پاکستان کے ساتھ دشمنی پال رکھی ہے۔ پاکستان کے وجود کو دل سے قبول ہی نہیں کیا۔ہم پر چار جنگیں مسلط چکا ہے۔ بھارت کو جب بھی موقع ملتا ہے پاکستان کو نقصان پہنچاتا ہے اور بدنام کرتا ہے۔حالانکہ قائداعظم کی سوچ کے مطابق ہمارے تعلقات کینیڈااور امریکہ والے ہونے چاہئیں تھے۔ پھر بھارت نے دریاؤں پر قبضہ کر کے ہماری زراعت تباہ کرنے کی کوشش کی ۔ یہ سب کچھ سوچ کر ہر پاکستانی کا دل دکھتا ہے ۔ آخر ہم اپنے مسائل حل کیوں نہیں کر سکتے؟پڑوسیوں میں سے بھی کوئی ملک ہم سے خوش نہیں ۔ لے دے کے صرف چین پر ہم بھروسہ کرتے ہیں لیکن بلوچستان خصوصاً گوادر میں جو موجودہ حالات ہیں وہ زیادہ خوش کن نہیں ہیں۔چین بھی ہماری کارگردگی سے کوئی زیادہ خوش نظر نہیں آتا۔ مسقبل کے حالات کافی مخدوش نظر آتے ہیں۔ اِس وقت دہشتگردی بھی پورے ملک میں عروج پر ہے ۔ یہ کم وپیش پچھلے دو دہائیوں سے جاری ہے۔ اب تک ہم اندازاً 80سے 90ہزار شہادتیں بوجھل دل کیساتھ قبول کر چکے ہیں۔حکومت فضول اور بے مقصد بیانات کے علاوہ بلکل بے بس یا لا تعلق نظر آتی ہے۔ حکومتی بڑھکوں سے تو کبھی دہشتگردی ختم نہیں ہوگی۔یہ دن بدن بڑھ رہی ہے بلکہ خانہ جنگی کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ پھر کچے کے ڈاکوؤں کا علیحدہ مسئلہ ہے ۔ انہوں نے پاکستان کے اندر اپنی ایک الگ ریاست بنا رکھی ہے اور حیران کن طور پر جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ شنید ہے کہ ان ڈاکوؤں کی پشت پر ہمارے کچھ سیاسی لیڈر ہیں جس وجہ سے پولیس بھی بے بس ہے۔
ان بڑھتے مسائل سے ہر پاکستانی پریشان ہے ۔ پھر بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ بے قابو مہنگائی نے عوام کو علیحدہ بے حال کر رکھا ہے۔ غریب عوام کی کوئی سننے والا ہی نہیں۔ عدلیہ ہر جمہوری حکومت میں عوام کا سہارا ہوتی ہے لیکن یہاں وہ خوش فہمی بھی ختم ہو چکی ہے۔عوام کی نظر میں اب پاکستان میں امن وامان ختم ہوچکا ہے۔ کسی کی عزت ،زندگی اور مال ودولت کچھ بھی تو محفوظ نہیں۔غریب عوام جائیں تو جائیں کہاں؟ حکومت کو تو شاید علم نہیں اور اگر علم ہو بھی تو اُسے کونسی پرواہ ہے۔لوگ ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر نہ صرف بدعائیں دیتے ہیں بلکہ ملکی حالات سے مایوس نظر آتے ہیں۔ ہم عوام جب ملکی مسائل کے متعلق سوچتے ہیں تو میرے دوست رانا صاحب کی سوچ پر یقین آجاتا ہے۔ وہ یہ کہ ہمارے سیاستدان مسائل پیدا کرنے کے تو ماہر ہیں مگر حل کرنے سے مکمل طور پر عاری ہیں۔ رانا صاحب جب بہت مایوس ہوتے ہیں تو گھر میںقائداعظم کے فوٹوکے سامنے جاکر ہاتھ اُٹھا کر اُونچی آواز میں شکوہ کرتے ہیں:’’ اوہ بابا ! یہ کن لوگوں کے لئے آپ نے پاکستان بنایا تھا؟‘‘ مسائل تو ہر ملک میں ہوتے ہیںلیکن جمہوری حکومتوں میں صاحب ِاقتدارسیاستدانوں کا فرض ہے کہ مسائل حل کریں ۔ ہمارے تمام مسائل پیدا کرنے والے ہمارے سیاستدان اور اُن کا ہمیشہ اقتدار میں زبردستی طور پر رہنے کا لالچ ہے۔
اگر ہم اپنے مسائل کا جائزہ لیں تو یہ بے شمار ہیں۔بہت سے مسائل تو ایسے ہیں جو پاکستان کی پیدائش کے وقت سے چلے آرہے ہیں۔گو ہمارے لیڈرز اپنی شاندار کارکردگی اور ملکی ترقی کے دعوے کرتے ہوئے اپنے آپ کو آسمان کی بلندیوں تک لے جاتے ہیںمگر افسوس نتیجہ وہی صفر کا صفر ہی رہتا ہے۔ اس وقت جو سب سے بڑا مسئلہ ہمارے سامنے ہے وہ صوبائیت پرستی کا خوفناک جن ہے جو آدھا پاکستان کھا چکا ہے اور باقی ماندہ کو کھانے کی تیاری میں ہے۔ موجودہ پاکستان کے صوبوں میں آبادی کے لحاظ سے پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کی آبادی تقریباً 13کروڑ ہے جو کہ باقی تمام صوبوں کی مشترکہ آبادی سے بھی زیادہ ہے۔پنجاب باقی صوبوں کی نسبت شروع سے تعلیم میں بھی آگے ہے۔ تقسیم ہند کے وقت پاکستان کو صرف ایک ہی یونیورسٹی ملی اور وہ تھی پنجاب یونیورسٹی ۔ اس لئے سروسز میں باقی صوبوں کی نسبت سب سے زیادہ حصہ پنجاب ہی کو ملتا ہے۔ دوسرا پنجاب کے کچھ علاقے ایسے ہیں جو مکمل طور پر’’ مارشل ایریا‘‘کہلاتے ہیں۔ لہٰذا ان علاقوں کا پسندیدہ پیشہ فوجی سروس ہی ہے۔ لہٰذا فوج میں پنجابیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ پاکستان فوج باقی صوبوں کی نظر میں پنجابی فوج بن چکی ہے۔باقی صوبے سمجھتے ہیں کہ سروسز میں انکا حق پنجاب نے دبا رکھا ہے ۔ اس لئے پنجاب ہی سب صوبوں کے لئے قابلِ نفرت بن چکا ہے۔
1971ء میں بنگالی اسی لئے پنجاب کے سخت خلاف تھے۔ ان کا پسندیدہ مقولہ تھا ’’ ایہہ شالا پنجابی‘‘ پاکستان فوج کو پنجابی فوج کہا کرتے تھے ۔ یہ لاوہ 1971ء میں جاکر پھوٹا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔اب وہی ڈرامہ بلوچستان اور فاٹا میںا سٹیج کیا جا رہا ہے۔جو کچھ 26اور 27اگست کی رات کو پنجابیوں کیساتھ بلوچستان میں ہوا ہے وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔یہ وقت ہے کہ ہمارے لیڈرز خوابِ غفلت سے جاگیں اور مسئلہ حل کریں۔ اختر مینگل نے تو کہہ دیا ہے:’’ بلوچستان ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔‘‘ اب مزید کس چیز کا انتظار ہے؟ واحد حل یہ ہے کہ پنجاب کو فوری طور پر تین صوبوں میں تقسیم کر دیا جائے تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے۔ بھارت نے بھی تو مشرقی پنجاب سے صوبہ ہریانہ نکالاہے۔ لہٰذا استدعا ہے اور دعا ہے کہ جاگیں اور پاکستان بچائیں۔ شکریہ!
اور اب بلوچستان۔۔!
Sep 23, 2024