عشق ’’کیوں‘‘اور’’کیا‘‘سے بے نیاز ہے۔ وہ بس ہو جاتا ہے۔ عمران خان عوام میں مقبول نہیں۔ لوگوں کو ان سے عشق ہے۔ 8فروری کا الیکشن عمران خان کی مقبولیت نہیں لوگوں کے عمران خان سے عشق کا اظہار تھا۔ مختلف انتخابی نشانات تلے لوگوں نے عمران خان کے امیدواران ایسے ڈھونڈ نکالے کہ ان کی تلاش کی داد دینا پڑتی ہے۔
پھر کیا عمران خان اقتدار میں آگئے؟
نہیں۔ پاکستان میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے ’’مقبولیت‘‘نہیں ’’قبولیت‘‘ چاہئے۔ کاکڑ اور نقوی اس سلسلے میں تازہ مثالیں ہیں۔ قبولیت کے اس راز سے سب سے پہلے ایڈمرل افتخار احمد سروہی نے پردہ اٹھایا۔ وہ اپنی آٹو بائیو گرافی’’سچ سمندر‘‘ میں لکھتے ہیں: پیپلز پارٹی الیکشن جیت چکی تھی۔بینظیر کے وزیر اعظم بننے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔چیف آف آرمی سٹاف ایوان صدر کے ایک اجلاس میں صاف کہہ چکے تھے کہ ہمیں بینظیر بھٹو بطور وزیر اعظم پاکستان قبول نہیں۔ پھر بینظیر بھٹو کو وزیر اعظم بنانے کے شواہد ملنے لگے۔14نومبر کو جائنٹ سٹاف ہیڈ کوارٹرز میں ایک اجلاس ہواجس میں آرمی چیف نے جائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کو اپنی بینظیر بھٹو سے ملاقات کی پوری روداد سنائی۔ اس میں قبولیت کی پوری کہانی موجود تھی۔ بتایا گیا کہ بینظیر بھٹو نے حسب ذیل پانچ شرائط قبول کر لی ہیں۔ ۱۔ افغان پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائیگی۔ ۲۔ ایٹمی پالیسی میں کوئی ردو بدل نہیں کیا جائیگا۔۳۔ ڈیفنس پالیسی حسب معمول جاری رہے گی۔ ۴۔ سول سروس کے ڈھانچے میں کوئی مداخلت نہیں کی جائیگی۔ ۵۔ جنرل ضیاء کے خاندان کو ہراساں نہیں کیا جائیگا۔ آرمی چیف نے بینظیر بھٹو کے یہ شرائط قبول کر لینے کے بعد انہیں وزیر اعظم پاکستان بنانا قبول کیا تھا۔ یہ’’قبولیت‘‘ تھی۔ ان آرمی چیف کا نام مرزا اسلم بیگ تھا۔
اب ان کا عدلیہ سے رویہ بھی دیکھ لیں۔ جنرل اسلم بیگ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے موقعہ ملنے کے باوجود اقتدار مارشل لاء کی شکل میں نہیں سنبھالا۔
4فروری 1993ء کو سابق جنرل اسلم بیگ (اب وہ ریٹائرڈ ہو چکے تھے)سے ایک ’’میٹ دی پریس‘‘ پروگرام میں پوچھا گیا۔’’کیا آپ نے جونیجو حکومت کی بحالی کا فیصلہ رکوانے کے لئے سپریم کورٹ کو کوئی ٹیلی فون کیا تھا‘‘؟انہوں نے جواب دیا۔ہاں! یہ بات درست ہے۔ ’’دی مسلم‘‘کے رپورٹر اورنگزیب کے اس سوال کے اثبات میں جواب سے عوامی اور عدالتی حلقوں میں ایک ہلچل مچ گئی۔ جنرل اسلم بیگ نے مزید بتایا۔ سانحہ بہاولپور سے 1988ء کے عام انتخابات تک کے ساڑھے تین ماہ کے درمیانی عرصہ میں، میں ٹاپ مین نہیں تھا۔ اس عرصہ کے تمام فیصلے صدراور کابینہ نے کئے۔ سپریم کورٹ میں جونیجو حکومت کی برطرفی کے خلاف درخواست زیر سماعت تھی۔ مجھے جب یہ خبر ملی کہ عدلیہ جونیجو حکومت بحال کرنے والی ہے تومیں نے ملک کے وسیع تر مفاد میں عدلیہ کو پیغام بھیجا کہ اب ہم ایک رخ پر چل پڑے ہیں۔ اب نئے انتخابات ہونگے۔ نئی حکومت آئیگی۔ میں عوام سے انتخابات کا وعدہ کر چکا ہوں۔ اب آپ جونیجو حکومت کو بحال نہیں کریں۔ ان سے پوچھا گیا۔ کیا صدر مملکت کو آپ کے جونیجو حکومت بحال نہ کروانے کے فیصلے کا علم تھا؟ انہوں نے جواب دیا۔ ’’مجھے علم نہیں کہ اس فیصلے کا علم صدر مملکت کو تھا یا نہیں‘‘۔ ان سے پوچھا گیا، کیا انہیں علم نہیں تھا کہ عدلیہ کو جونیجو حکومت کی بحالی سے روکنا عدلیہ کی توہین کے برابر ہوگا۔ اس پر وہ کہنے لگے۔ ’’جی ہاں!مجھے اچھی طرح علم تھالیکن میں نے مصلحت کی بجائے بہتر فیصلے کو مناسب سمجھا‘‘۔
یہ ساری تفصیلات اخبارات میں شائع ہوئیں۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس محمد حلیم نے اس پر شدید رد عمل کااظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’اسلم بیگ نے توہین عدالت کی ہے اور وہ اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ مجھے فیصلہ کرنے سے روکتے۔ چیف جسٹس محمد حلیم جونیجو حکومت کی برطرفی کے خلاف اپیل سماعت کرنے والی سپریم کورٹ کے فل بنچ کے سربراہ تھے۔ اسی قسم کے رد عمل کا اظہار بنچ کے دوسرے ممبران نے بھی کیا۔ اس شدید رد عمل کے بعد جنرل اسلم بیگ نے اپنے بیان کی مزید وضاحت کی۔ ’’میں نے جونیجو حکومت کے متعلق رٹ کے بارے میں سپریم کورٹ کو نیک نیتی سے وسیع تر عوامی مفاد میں ایک پیغام بھجوایا تھا۔میں نے جو کچھ کہامیں آج بھی اس پر قائم ہوں‘‘۔
جونیجو حکومت توڑے جانے کے خلاف رٹ کے مدعی حاجی سیف اللہ تھے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ جنرل اسلم بیگ نے جو کچھ کہا اس کا ذکر میرے وکیل ریٹائرڈ جسٹس شوکت علی نے مجھ سے اس وقت کیا تھا جب وہ رٹ کی پیروی کر رہے تھے۔ میرے وکیل نے مجھے بتایا کہ اگر محمد خاں جونیجو فوج سے اپنے تعلقات بہتر بنا لیں تو اسمبلیاں بحال ہو سکتی ہیں۔حاجی سیف اللہ کے مطابق انہوں نے یہ بات جونیجو تک حامد ناصر چٹھہ کی موجودگی میں پہنچا دی تھی۔
المختصر!جنرل اسلم بیگ کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے سلسلے میں بلایا گیا۔ لیکن وہ اپنے بیان سے مکرے نہیں۔توہین عدالت کی کاروائی مکمل ہوئی۔ آٹھ صفحات پر مشتمل توہین عدالت کا فیصلہ ہماری عدلیہ اور فوج کی پوری حدود واضح کرتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں کہا گیا۔’’مرزا اسلم بیگ کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی مکمل کی جاتی ہے۔ انہیں مخصوص حالات کے پیش نظر ڈسچارج کیا جاتا ہے۔ تاہم وہ توہین عدالت کے قصور وار پائے گئے ہیں‘‘۔
سیموئیل ایڈورڈ نے اپنی کتاب ’’ملٹری ان پالیٹکس‘‘ میں لکھا۔’’فوجی بغاوتیں اور عسکری بالادستی ان علاقوں میں ہوتی ہیں جہاں جمہوریت اشرافیہ کے کنٹرول میں ہوتی ہے اور سیاسی جماعتوں کا گراس روڈ لیول تک کوئی تنظیم نہیں ہوتی‘‘۔ بدقسمتی سے پہلے روز سے ہی ہماری جمہوری عمارت غلط بنیاد پر کھڑی کی گئی ہے۔ لیاقت علی خاں کا یہ کہنا کہ مسلم لیگ کی مخالفت پاکستان کی مخالفت ہے، خالصتاً غیر جمہوری انداز فکر تھا۔ پھر جماعتی عہدوں پر پسندیدہ افراد کی نامزدگی کرپشن کے فروغ کا ذریعہ بنتی رہی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب بزدار جو اب کہیں نظر نہیں آرہے کی نامزدگی اسکی ایک زندہ مثال ہے۔ سیاسی جماعتوں کی گراس روٹ لیول تک جماعتی تنظیم میں سے ہی جمہوریت پھوٹتی ہے۔ پھر ہماری ان بیچاری تنظیموں میں نہ ہی کوئی تنظیم ہے اور نہ ہی کوئی منشور۔ ہم بیچارے نواز شریف لورز اور عمران خان لورز کے جتھوں کو ہی سیاسی جماعتیں سمجھے بیٹھے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں ’میرا دین رانجھا۔ میرا ایمان رانجھا‘ کا ہی منظر نامہ پیش کر رہی ہیں۔ ہمارے ہاں سول بالا دستی کا تصور بھی شخصی آمریت کے حصار میں ہے۔