مودی سرکار نے بھارتی قانون کے وقف ایکٹ میں 40 نئی ترامیم کرنے کا اعلان کیاہے۔ ان ترامیم کے تحت وقف بورڈ کے پاس موجود تمام اختیارات چھین لیے جائیں گے اور مسلمانوں کی املاک مثلاً مساجد، مدارس خیراتی اداروں اور درگاہوں پرقبضے کے ساتھ ان کو شہید کرنے کی بھی کھلی چھوٹ مل جائے گی۔ مسلمانوں کی جائیدادیں اور مذہبی مقامات بھارت میں اب بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ان کو گرایا جاتا ہے، جلایا جاتا ہے اور جہاں چاہے قبضہ کر لیا جاتا ہے۔ بابری مسجد کو شہید کرنا اور اس کی جگہ رام مندر تعمیر کرنا اس کی ایک بھیانک مثال ہے۔ اب مودی حکومت کی نظر وقف املاک پر ہے۔ وقف ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا وقف بورڈ ایک ایسا ادارہ ہے جس کے ذریعے صاحب استطاعت مسلمان زمین اور دیگر اثاثے خیرات کے نام پر وقف کرتے ہیں۔ وقف کی سرپرستی مسلم پارلیمنٹیرین، مسلم ممبران برائے ریاستی بار کونسل اور نامور عالم دین کرتے ہیں۔ وقف ایکٹ اس امر کی یقین دہانی بھی کراتا ہے کہ وقف کی گئی زمینوں اور دیگر املاک مثلاً مساجد، مزارات اور تعلیمی اداروں کی منتقلی، تعمیر اور فعالی قانون کے مطابق ہوگی۔ مودی حکومت 10 سال سے بھارت میں فسطائیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہاں نہ صرف مسلمان محفوظ نہیں ہیں بلکہ سکھ، عیسائی اور سماجی اقلیتیں بھی شدت پسند ہندوؤں کے انتقام کا نشانہ بنتی رہتی ہیں۔ ان کی دنیا میں کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ انسانی حقوق کے تحفظ کا سب سے بڑا ادارہ اقوامِ متحدہ ہے۔ انسانی حقوق کی بات کرنے والی دیگر طاقتیں بھی دنیا میں موجود ہیں مگران کی طرف سے بہت سے مظالم پر یہ کہہ کر آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں کہ یہ اس ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔ شدت پسندوں کے بہیمانہ انتقام کا نشانہ بننے والی قومیتیں مظالم سے نجات اور انصاف کے لیے کس دروازے پر دستک دیں؟ اس صورتحال میں تو پھر ان کے لیے تنگ آمد بجنگ آمد کا راستہ ہی بچتا ہے۔