تحریک انصاف کے جلسے کا مقررہ وقت ختم ہونے پر پولیس نے جلسہ گاہ پہنچ کر ڈی جے کا سائونڈ سسٹم ، جنریٹر سے بجلی بند کروادی، جس کے بعد پی ٹی آئی رہنما سٹیج سے اتر گئے۔ شرکا ء جلسہ گاہ سے نعرے بازی کرتے ہوئے واپس چلے گئے۔ بیرسٹر گوہر نے خطاب میں کہا کہ آزاد عدلیہ پر قدغن کسی صورت بھی قبول نہیں۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور مقررہ وقت پر جلسہ گاہ نہ پہنچنے پر غصے میں آگئے۔ انھوں نے کالا شاہ کاکو کے قریب غصے میں آکر کلاشنکوف کے بٹ مار کر ٹرک کے شیشے توڑ دیے اور نازیبا کلمات کہتے رہے۔ علی امین گنڈا پور نے رنگ روڈ پر ہی کارکنوں سے مختصر خطاب کیا اور واپس روانہ ہو گئے، بعد میں ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ فارم 47 کی حکومت کو نہیں مانتے، کسی حکومتی آئینی ترمیم کو نہیں مانیں گے۔ دوسری جانب، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے کہا ہے کہ ناکامیاں پی ٹی آئی کا مقدر بن چکی ہیں، لاہور جلسے سے متعلق پی ٹی آئی نے بہت بڑھکیں ماریں، پورا زور لگانے کے باوجود یہ لوگ جمع نہیں کر سکے، عوام نے انھیں یکسر مسترد کر دیا ہے۔ حکومت پنجاب کی جانب سے تحریک انصاف کو مویشی منڈی کاہنہ میں جلسے کا سہ پہر 3 بجے سے شام 6 بجے تک کا وقت دیا تھا۔ وقت ختم ہونے کے بعد جلسہ ختم نہ کرنے پر انتظامیہ اور پولیس جلسہ گاہ پہنچ گئی اورجلسہ ختم کروایا۔ پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے کے لیے این او سی جاری کرنا پنجاب حکومت کے جمہوریت پسند ہونے کا تاثر ابھر کر سامنے آیا مگر اجازت دینے کے بعد پی ٹی آئی کارکنوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا، جلسے کا وقت مقرر کرنا اور مقررہ وقت پر انتظامیہ اور پولیس کے ذریعے جلسہ ختم کرانے کے اقدامات درحقیقت حکومتی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتے ہیں۔ اگر حکومت کشادہ دلی کے ساتھ پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے دیتی تو اس سے عوام کا جمہوریت پر یقین پختہ ہوتا اور حکومت کی نیک نامی بھی ہوتی۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے راہ میں کھڑی رکاوٹیں دور کرنے کے لیے انتظامیہ کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا وہ بھی کسی طرح قابل قبول نہیں۔ اس سے پی ٹی آئی کی انتشاری سیاست کی روایت ہی سامنے آئی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت اور اپوزیشن دونوں کی طرف سے عوامی مسائل پر بے حسی کا ہی مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور دونوں ہی پوائنٹ سکورنگ کی روایتی سیاست کرتے نظر آرہے ہیں۔