وزیراعظم محمد شہباز شریف اقوامِ متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے امریکا روانہ ہوگئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں وہ لاہور سے لندن پہنچیں گے، جہاں ایک رات قیام کے بعد وہ آج 23 ستمبر کی شام کو لندن سے امریکا جائیں گے۔ روانگی سے قبل شہباز شریف نے کہا کہ 79ویں جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر عالمی مسائل، امن کے فروغ، ترقی اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے امور کو اجاگر کیا جائے گا، دنیا کے سامنے پاکستان کا نقطہ نظر پیش اور مختلف امور پر پاکستان کے موقف اور مفادات کی ترجمانی کروں گا۔ سماجی رابطے کے ذریعے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری بیان میں انھوں نے مزید کہا کہ نیویارک میں انتہائی مصروف وقت گزرے گا۔ بین الاقوامی شراکت داری کو مضبوط کرنے کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں سے بھی دنیا کو آگاہ کیا جائے گا۔
رواں برس منعقد ہونے والا اقوامِ متحدہ کا سالانہ جنرل اسمبلی اجلاس اس حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ یہ 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک غزہ میں دہشت گرد ریاست اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی بربریت کے دوران انعقاد پذیر ہورہا ہے۔ غزہ میں جاری صہیونی دہشت گردی سے متعلق اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے اجلاس اس سے پہلے بھی ہوچکے ہیں اور ان میں بین الاقوامی برادری واضح طور پر بتا چکی ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کی آشیرباد سے ہونے والی اس دہشت گردی کو قابلِ قبول نہیں سمجھتی۔ شہباز شریف مختلف مواقع پر اپنے بیانات وغیرہ میں مسئلۂ فلسطین سے متعلق پاکستان کے دو ٹوک موقف کی وضاحت کرچکے ہیں، اب اس موقع پر بھی انھیں اس مسئلے کو خصوصی طور پر اپنے خطاب میں اہمیت دینی چاہیے اور یہ کوشش بھی کرنی چاہیے کہ جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر دیگر مسلم ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل بھی تشکیل دیا جائے جس سے عالمی برادری پر یہ بات پوری طرح واضح کی جاسکے کہ اگر غزہ میں جاری صہیونی دہشت گردی اور مغربی ممالک کی طرف سے اس کی پشت پناہی نہ روکی گئی تو یہ آگ مشرقِ وسطیٰ کے ایک حصے تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ اس سے پوری دنیا کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
اسی طرح5 اگست 2019ء سے بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں جو صورتحال پیدا کی گئی ہے اس نے خطے میں امن و امان کے قیام کو مشکل تر بنا دیا ہے۔ اس مسئلے کے اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کے لیے بین الاقوامی برادری کو اپنا کردار مؤثر انداز میں ادا کرنے کے لیے قائل کیا جانا چاہیے۔ مقبوضہ وادی میں 1875 دن سے کرفیو لگا ہوا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ مودی سرکار کشمیریوں کو ان کے بنیادی اور جائز حقوق دینے سے انکار کررہی ہے اور یہ بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں ہے۔ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کے علاوہ بھی بہت سے بین الاقوامی اور عالمی پلیٹ فارمز اسے ایک بین الاقوامی تنازعہ سمجھتے ہیں جس کا دوسرا فریق پاکستان ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس مسئلے کے دونوں فریق جوہری قوت رکھتے ہیں اور ان کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی اس خطے سمیت پوری دنیا کے لیے گمبھیر مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔
ہمارے ہمسایے میں ایک اور ایسا ملک ہے جس کی وجہ سے پورے خطے میں مسلسل مسائل پیدا ہورہے ہیں اور اس کے رویے کی وجہ سے بین الاقوامی برادری اس کے ساتھ تعاون کرنے سے بھی ہچکچا رہی ہے۔ افغانستان میں تین برس پہلے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد قائم ہونے والی طالبان کی عبوری حکومت کو پاکستان کی نہ صرف حمایت حاصل رہی بلکہ پاکستان نے ہر موقع پر اس کے لیے سہولت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ جنرل اسمبلی اجلاس کے آغاز کے موقع پر نیو یارک میں وائس آف امریکا کو انٹرویو میں پاکستان کے اقوامِ متحدہ میں مستقل مندوب منیر اکرم نے اسی بات کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان کی غلطیاں اپنی جگہ لیکن افغانستان کے اندرونی اور بیرونی مسائل مشترکہ حکمت عملی اور متفقہ اقدامات سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی صورت میں افغان طالبان کو تنہا کرنے کی پالیسی کا حامی نہیں ہو گا اور یہ کہ افغان حکومت کی غلطیوں کی سزا افغانستان کے عوام کو نہیں ملنی چاہیے۔ اس بیان سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان افغانستان اور افغان عوام کی ترقی اور استحکام کا حامی ہے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ اپنے خطاب میں افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے پیدا کیے جانے والے مسائل کو بھی موضوع بنائیں۔
وزیراعظم ایکس پر جاری اپنے بیان میں بتاچکے ہیں کہ وہ اپنے خطاب میں موسمیاتی تبدیلی پر بھی بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر پاکستان کو سب سے زیادہ توجہ دینے اور بات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو ان تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس بھی اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کی غلطیوں کی سزا مل رہی ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ان ممالک کا جو نقصان ہورہا ہے اس کی تلافی کے لیے بین الاقوامی برادری کو مل کر کردار ادا کرنا چاہیے۔ جنرل اسمبلی اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران شہباز شریف کو دیگر مسائل کے ساتھ اس مسئلے کو بھی اجاگر کرنا چاہیے تاکہ عالمی سطح پر اس کی اہمیت مزید واضح کی جاسکے۔
وزیراعظم اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے روانہ
Sep 23, 2024