رحمت دوعالم ؐ کا فرمان مقدس ہے کہ ’’پیدا ہونے والا ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی،عیسائی،مجوسی اور مشرک(بت پرست)بناتے ہیں (بخاری،مسند احمد)رحمتہ للعالمینؐ نے تمام انسانوں کو پیغام دے دیا کہ بچے کو اپنی مذہبی عینک کے ساتھ نہ دیکھنا۔بچے کو بس بچے کی حیثیت سے دیکھنا اور اس کے ساتھ پیار اور الفت کا رویہ اختیار کرنا۔آپؐ بچوں کے لیے انتہائی مہربان ہیں۔اس قدر مہربان کہ حال اور مستقبل میں آنے والے بچوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ماضی میں گزرے بچوں کے ساتھ بھی مہربانی اور شفقت بھرے خیالات کااظہار فرمانے والے ہیں۔دین اسلام ہمیں بچوں سے محبت اور پیار کرنے کا درس دیتا ہے،ایک بار حضور ؐ اپنے ننھے نواسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے پیار کرتے ہوئے منہ چوم رہے تھے۔وہاں موجود ایک شخص نے حیران ہوکر کہا:میرے دس بیٹے ہیں مگر میں نے کبھی کسی کو پیار نہیں کیا۔آپ نے فرمایا:جو رحم نہیں کرتا اللہ پاک بھی اس پر رحم نہیں فرماتا۔قارئین کرام!فرعون مصر کا ایک ظالم اور جابر بادشاہ تھا،جس کی حکومت،قبطیوں اور بنی اسرائیل دونوں پر تھی۔چنانچہ اس نے خواب دیکھا کہ آگ کا ایک بگولہ،بیت المقدس کی جانب سے آیا اور اس نے مصر کو اپنے لپیٹ میں لے لیا،پس اس آگ نے اس میں رہنے والے قبطیوں کو جلا ڈالا اور بنی اسرائیل والوں کو چھوڑ دیا۔فرعون نے اس کی تعبیر معلوم کی تو معبرین نے بتایا کہ بیت المقدس جو بنی اسرائیل کا ٹھکانہ تھا،وہاں سے ایک شخص آئے گا اور اس کے ہاتھوں مصر فتح ہوگا،اور فرعون کی بادشاہت ختم ہوجائے گی۔فرعون نے یہ سنتے ہی حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے تمام لڑکوں کا قتل کردیا جائے،اور لڑکیوں کو غلامی کے لیے چھوڑ دیا جائے۔چنانچہ مفسرین حضرات لکھتے ہیں کہ فرعون نے اپنی جھوٹی شان وشوکت اور اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے بنی اسرائیل کے نوے ہزار لوگوں کا قتل کیا۔فرعون نے قوم بنی اسرائیل کی نسل کشی کی ابتداء کی تھی۔ اس لیے مورخین نے لکھاہے کہ اقتدار کی ہوس میں معصوم بچوں کو قتل کروانا سلاطین اسلام کی روایت نہیں بلکہ فراعین مصر کا شیوہ ہے۔آج بلوچستان میں دہشت گرد تنظیمیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے معصوم بچوں کا استعمال کررہی ہیں۔دہشت گردوں کا اپنے نیٹ ورک میں معصوم بچوں کی بھرتی ایک سفاکانہ اور غیر انسانی عمل ہے،جو دہشت گرد تنظیموں میں وسیع پیمانے پر پھیلتا ہوا واضح رجحان بنتا نظر آرہا ہے۔اس بھرتی کے نتیجے میں عموماً بچوں کا بدترین استحصال ہوتا ہے اور ان سے بدسلوکی کی جاتی ہے۔دہشت گردتنظیموں کے لیے بچوں کی بھرتی متعدد معاشی فوائد کی حامل ہے،جیسا کہ بچوں کو بڑوں کے مقابلے میں کم معاوضہ ملتا ہے اور ان کے کھانے پینے کے لوازمات بھی بڑوں سے کم ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں بچوں کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر قابوکرنا آسان ہوتا ہے اور وہ بڑوں کے مقابلے میں احکامات وہدایات پر زیادہ عمل درآمد کرتے ہیں۔بارودی مواد لے جانے،پیغامات پہنچانے اور خود کش حملے کرنے میں بچے اور ان میں خصوصاً خواتین تیزی سے استعمال کی جارہی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کو ان سے لاحق خطرات سے آگاہی کم ہوتی ہے۔ چند عرصہ قبل خاران ایری گیشن کالونی کے رہائشی گیارہ سالہ قدرت اللہ کو چند پیسوں کا لالچ دے کر ایک پیکٹ دوسری جگہ پہنچانے کے لیے دیاگیا،جس میں بم تھا قدرت اللہ نے گھر جاکر جیسے ہی اسے کھولنے کی کوشش کی تو وہ پھٹ گیا اور معصوم قدرت اللہ موقع پر ہی شہید ہوگیا،اسی طرح بلیدہ میں ہوا اور سیکڑوں ایسے واقعات ہیں جن میں معصوم بچوں اور خواتین کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔معصوم بچے بالغوں سے کم مشکوک نظر آتے ہیں،اس بات کا دہشت گرد تنظیموں نے خوب فائدہ اٹھا یا اور اپنے ناپاک مقاصد میں ان کو بطور خود کش بمبار استعمال کرکے سیکڑوں ماؤں کی گودیں اجاڑ دیں۔یاد رکھیے گا کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب کوئی بھی عقیدہ انسانی جانوں کے ضیاع کا حکم نہیں دیتا،دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا دہشت گرد صرف دہشت گرد ہوتا ہے۔دہشت گرد وں کے منفی پراپیگنڈے سے صاف واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے اہداف ومقاصد کی تکمیل کے لیے نہ بچوں کی معصومیت کو مدنظر رکھتے ہیں،نہ خواتین کی عزت وآبرو کاپاس رکھتے ہیں اور نہ ہی اس دنیا میں فساد نہ پھیلانے کے حکم کا،جو اللہ رب العزت نے صاف اور واضح الفاظ میں بار بار دیا ہے،کی تعمیل کرتے ہیں،تعمیل کرتے ہیں توصرف اپنی منفعت اور فائدہ کی۔آج ہمیں دہشت گردی اور آزادی کی تحریکوں میں فرق کو سمجھنا ہوگا،آزادی کی تحریکوں میں بے گناہوں کا قتل عام نہیں کیا جاتا،ملکی املاک کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا،بوڑھوں،بچوں اور خواتین پر ظلم نہیں کیا جاتا۔آج بلوچستان میں دہشت گرد اپنے مفادات کے لیے بلوچیت کا لیبل لگا کر بلوچ قوم کی نسل کشی کررہے ہیں۔اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا ہر انسان کا بنیادی حق ہے مگر حقوق کے نام پر انتشار پھیلانا،جلاؤ گھیراؤ کرنا،روڈ بلاک کرنا،لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا اور اپنے ہی لوگوں کے خون سے ہاتھ رنگین کرنا سراسر دہشت گردی ہے۔محب وطن بلوچ عوام کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گرد ان کا استحصال کررہے ہیں،انہیں ریاستی مظالم کی جھوٹی کہانیاں سناکر گمراہ کیا جارہا ہے،تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں کو قومیت اور آزادی کے نام پر جذباتی کرکے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ان کے ہاتھوں سے قلم چھین کر بندوقیں تھمائی جارہی ہیں۔ان دہشت گردوں نے اپنے مقاصد کے لیے تعلیم یافتہ خواتین کو بطور حفاظتی ڈھال استعمال کرکے اسلامی اور بلوچ روایات کو پامال کیا ہے۔اپنے مفادات اور مقاصد کے لیے ہتھیار اٹھانا جہاد نہیں بلکہ فساد ہوتا ہے اور یہ شرعاً اور قانوناً حرام ہے۔اپنے مفادات کے لیے بچوں اور خواتین کا سہارا لینے والے کسی بھی صورت بلوچ قوم کے حقوق کے محافظ نہیں ہوسکتے۔میری والدین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے معصوم بچوں پر خصوصی نظر رکھیں،کیونکہ انسانوں کے روپ میں یہ درندے آپ کی نسل کو نگل رہے ہیں۔یہ جان لیں کہ بلوچ قوم کی نسل کشی کی اصل ذمہ دار یہ دہشت گرد تنظیمیں ہیں جو اپنے مقاصد کے لیے فراعین مصر کی طرح معصوم بچوں کو قتل کررہی ہیں۔آج ہمیں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد ہوکراپنی ریاست اور ریاست اداروں کا ساتھ دینا ہوگا۔انشاء اللہ،ہم یہ جنگ بھی جیتے گے۔