مولانا فضل الرحمٰن کا شمار ملک کے زیرک ترین سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ان کا آستانہ آج کل سیاسی سرگرمیوں کا محور بنا ہوا ہے۔ اور بھلا ایسا کیوں نہ ہو، ان کے بغیر نہ حکومت کی کشتی کنارے لگ سکتی ہے اور نہ ہی اپوزیشن کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ سکتا ہے۔
باوجود اس کے کہ مولانا کی حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ اکثریتی نکات پر اتفاقِ رائے طے پا چکے تھے، بشمول عدالتی نظام کی تشکیل، ججوں کی مدتِ ملازمت میں اضافہ، ملک کے وسیع تر مفاد میں چند آئینی اور سیاسی عہدوں پر اپنے نمائندگان کی خدمات فراہم کرنا اور دیگر امور۔ چونکہ مولانا انتہائی دوراندیش سیاستدان ہیں، ان کے مطابق ان نکات پر اتفاق رائے اور ان پر عمل درآمد توپ سے مکھی مارنے کے مترادف ہوگا اور اس سب پر تو کچھ عرصے بھی بات ہوسکتی ہے۔
مولانا نے موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے حکومتی ٹیم کو کھبی دیکھا کہ سجی ماری اور اس عمل سے ہی پی ٹی آئی والوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ یہ وہ موقع ہے جس سے مولانا پی ٹی آئی کی طرف سے لگائے گئے تمام الزامات کو دھو سکتے ہیں اور خیبر پختونخوا، جو مولانا کی سیاست کا محور اور پی ٹی آئی کی طرف سے اعلان کردہ جنگی میدان ہے، میں اپنی سیاسی طاقت دوبارہ ہموار کر سکتے ہیں۔
ویسے بھی حال ہی میں پی ٹی آئی کو اپنے قریبی بزرگ، بقول خواجہ آصف کے چچا، فیض حمید کی جدائی کا صدمہ لاحق ہے، تو مولانا نے اپنی امامت میں نماز پڑھا کر، ان کے منہ بولے تایا ابو کا کردار ادا کیا اور زخموں پر مرہم رکھا۔ اس کارِ خیر کی تصاویر جاری کر کے سنت بھی محفوظ رکھ لی کہ کل کو پی ٹی آئی کی جانب سے دوبارہ لان تان کا سلسلہ جاری ہو تو انہیں یہ ثبوت دکھا کر شرم دلائی جا سکے۔
اس نَو نَہَاتَے جوڑے کی منگنی بھلے عارضی کیوں نہ ہو، جدھر یہ تعلق کچھ عرصہ کے لیے مولانا صاحب کو پی ٹی آئی کے شر سے محفوظ رکھنے کا زامن ہے، اْدھر اب عمران کو بھی مولانا کچھ مدت تک یہودی ایجنٹ قرار نہیں دیں گے۔ لہذا دونوں جانب سے غیر علانیہ سیز فائر ہے۔
بظاہر تو مولانا نے اہم آئینی ترامیم پر حکومت کا ساتھ نہ دے کر پی ٹی آئی اور ان کے حمایتیوں کو وِکٹری اسٹینڈ پر کھڑا کر دیا ہے۔ لیکن کیا کیجیے اس سادہ صفت انسان کا جس کے تجزیے کے مطابق پی ٹی آئی کا انجام اس منچلے سا ہوگا جو پوری رات دیگ کے سامنے دھمال ڈالتا رہا اور آخر میں جب دیگ پک گئی، پکوان نے آواز لگا دی، "پیچھے پیچھے ہو جاؤ، اے دیگ آساں پاک پتن شریف لے کے جانی اے" اور اس منچلے کو خالی شاپر سمیت گھر لوٹنا پڑا۔