دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
مدعا سے قبل مہتاب رائے تاباں کے شعر سے استفادہ کریں ، نصف بات خود بخود سمجھ آجائے گی …حکومت آئین سازی کرنا چاہتی ہے تو کرنے دی جائے۔اسمبلیاں ہوتی ہی قانون سازی کیلئے ہیں۔ آئنی عدالت بنانے کی وجہ یہ بھی ہے کہ دن بدن کیسوں کی تعداد می اضافہ ہو رہا ہے۔صرف سپریم کورٹ میں 62 ہزار کیس دائر ہیں۔حکومت کے پاس اس کا حل وفاق اور صوبوں میں آئنی عدالتوں کا قیام ہے بہت سے ممالک میں یہ کورٹس موجود ہیں۔ یہ سب کیلئے اچھی خبر تھی، اسمبلیوں کو ترمیم کرنے سے روکنا غیر جمہوری عمل ہے۔ سب جانتے ہیں اگر نمبر پورے ہوئے تو ترمیم کرنا ممکن ہے ورنہ نہیں۔ ماضی میںعدالتوں کا کردار مثالی نہیں رہا۔اب بھی اچھا نہیں،اسمبلیوں کا اصل کام ہی یہی ہے کہ وہ وقت کے ساتھ موجودہ آئین میں ضرورت کے مطابق ترمیم کرتی رہیں قانون بناتے رہیں۔ آئنی ترمیم سے پہلے ہی پانی میں تلواریں مار چکے ہیں۔ ابھی مسودہ اسمبلی میں ٹیبل نہیں ہوا اور انہوں نے سپریم کورٹ میں پیٹیشن دائر کر دی تھی۔جو اب ردی کی ٹوکری میں ہے۔ ایک جماعت چاہتی ہے کہ قاضی جانے اور منصور علی شاہ صاحب آئیں اس مسودہ میں ریٹائرمنٹ عمر میں توسیع پیکچ کا ذکر نہیں۔پی ٹی آئی کے علی محمد خان کا کہنا ہے اگر آئنی ترمیم پر بات کرنی ہے تو پہلے ہمارے لیڈر کو جیل سے رہا کرو۔ کہتے ہیں اگر جسٹس منصور علی شاہ صاحب کو چیف جسٹس نہ بنایا گیا تو جلوس نکالیں گے۔ یعنی اگر جج ان کی مرضی کا نہ ہوا تو نا منظور۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ یہ فیصلے غیر آئینی سیاسی لکھتے ہیں یا نہیں۔ اس وقت نہ ہی ہمارے سیاسی رویے ٹھیک ہیں اور نہ ہی عدالتی رویے اور فیصلے،یہ لمحہ فکریہ ہے۔20ستمبر کی صبح دوران ریحان الدین خان ایڈووکیٹ اور چیف جسٹس کے مابین تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں پولیس کو بلا کر عدالت سے ہی باہر نکال دیا۔افسوس کہ کورٹ میں موجود کسی سپریم کورٹ کے وکیل نے چیف جسٹس کو ایسا کرنے سے منع نہیں کیا کہ جناب ایسا برتاؤ وکلا کے ساتھ سے نہ کریں۔ یہ عمل کسی کو ذیب نہیں دیتا۔طاقتور وہ کہلاتا ہے جو غصہ برداشت کرتا ہے۔ وکلا بھی ججز کے رویوں کو برداشت کرتے ہیں۔ججز کو اپنے رویوں پر خود غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔سوچنا ہو گا کہ اب تک کتنے وکلا اور لا افسران سے کیس سنتے ہوئے تلخ کلامی جرمانے کر چکے ہیں۔ یاد رییآپ وکلا کی تربیت کرنے نہیں آتے کیس سن کر فیصلے کرنے آتے ہیں۔ ججز کا کام بولنا نہیں سن کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ طاقت نہیں کہ جرمانے گئے جائیں کورٹ سے باہر نکال دیا جائے۔آپ اچھی یادیں چھوڑ کر جائیں۔ قصور میرا یا تیرا … یہ کوئی نہیں دیکھتا ایکشن دیکھا جاتا ہے۔احتیاط کریں اگر کسی کو دوسرے کی کوئی بات پسند نہیں بری لگتی ہے تو درگزر سے کام لیں۔امام شافعی کا یہ واقع یاد آ رہا ہے جو مجھے بابا کرمو نے سنایا تھا۔
؛ امام شافعی کے ایک شاگرد کا نام یونس تھا، اس طالب علم کا امام صاحب سے کسی مسئلہ میں اختلاف ہو گیا، اختلاف رائے دینے کے بعد وہ طالب علم غصے سے اٹھا اور اس دن کلاس ادھوری چھوڑی، اپنا سبق ادھورا چھوڑا اور اپنے گھر چلا گیا !جب رات ہوئی تو شاگرد کے دروازے پر دستک ہوئی۔ جب دروازہ کھول گیا تو سامنے استاد محترم کھڑے تھے۔ امام شافعی نے فرمایا: "اے یونس! سینکڑوں باتیں ہمیں باہم متحد کرتی ہیں اور صرف ایک مسئلہ ہمیں جدا کرتا ہے۔" اوہ یونس، تمام اختلافات میں اپنے ہم مذہبوں سے جیتنے کی کوشش نہ کریں.. کبھی کبھی "دلوں کو جیتنا" "مناظرہ اور بحث جیتنے" سے زیادہ اہم ہوتا ہے! اوہ یونس، ان قیمتی تعلقات کو تباہ نہ کرو جو تم نے دوسروں کے ساتھ خوشگوار لمحات میں بنائے ہیں اور ایک دن تمہیں اپنے ان ساتھیوں کے پاس واپس آنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ میں ہمیشہ "غلطی" سے نفرت کرتا ہوں لیکن "غلطی کرنے والے" سے نفرت نہیں کرتااور "معصیت" سے دل سے نفرت کرو لیکن "گنہگار" کو معاف کر کے اس پر رحم کر !! اے یونس "کہنے والے کی بات " پر تنقید کرلو مگر "کہنے والے" کی عزت اور اس کا ادب کرو ہمارا مشن "بیماریوں " کو ختم کرنا ہے… نہ کہ "بیماروں" کو ختم کرنا!! یہ امام شافعی کی نصیحت ہم سب کیلئے ہے۔ موجودہ صورتحال سے لگتاہے
ترمیم ہو جائے گی۔ شائد اب مولانا کی ضرورت نہ پڑے، صورتحال یہ ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ریٹائرڈ ہونے کا وقت قریب دکھائی دیتا ہے۔ منصور علی شاہ صاحب ہی چیف جسٹس ہونگے لیکن ترمیم کے بعد ان کا جانا بھی ٹھہر گیا ہے پھر پانچ ججز سے سلیکشن ہو گی اور پانچویں جج چیف جسٹس ہونگے لہذا جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس بننا مشکل ہے۔ویسے بھی بارہ جولائی کا آٹھ ججز کا شارٹ آڈر جو آپ لکھ چکے ہیں یہ آڈر ان کے رستے کی رکاوٹ بنا ہے یہ فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق لکھا نہیں گیا۔ اسی بنچ کے دو ججز لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایسا فیصلہ لکھ کر قانون اور آئین کی خلاف فرضی کی ہے۔ اب آئین کہتا ہے جو آئین کی خلاف فرضی کرتا ہے اس پر آرٹیکل چھ لگتا ہے۔ ماضی میں جن پر یہ آرٹیکل چھ لگنا تھا۔لگا نہیں اگر یہ لگایا جاتا تو آج عدالتوں کی یہ حالت نہ ہوتی۔ اس کے قصوروار کچھ جج صاحبان بھی ہیں۔ اقلیتی فیصلے کے شارٹ آڈر کو آئے ہوئے 80 دن گزر چکے ہیں مگر ابھی بھی اس کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا۔ اس کی ان ججز کو کوئی پرواہ نہیں۔چھٹیاں گزارنے ملک سے باہر چلے گئے۔ یہ چھٹیاں گزارنے گئے تھے یا مشورہ لینے؟۔ ایک ترمیم یہ لانا بھی ضروری ہے کہ سروس کے دوران کوئی بھی سرکاری ملازم ملک سے علاج کرانے کے بہانے یا چھٹیاں منانے نہیں جایا کریں گے۔ زور اس پر ہے کہ سپریم کورٹ کے اس شارٹ آڈر پر عمل کیا جائے ورنہ نتائج کے لیے الیکشن کمیشن تیار رہے۔ اب ضرورت اس بات کی تھی کہ جو کچھ ان آٹھ ججز نے لکھا اس پر احتجاج کرتے مگر ان کا بھی زور اپنی جماعت کیلیے ہے کہ اس پر عمل کریں جب کہ ان کا شارٹ آڈر وہ ہے جو اس سیاسی جماعت نے کیس کے دوران وہ کچھ مانگا ہی نہیں تھا۔جو ان ججز نے انہیں دے دیا ہے۔ یہان ججز کا قانونی آئنی فیصلہ نہیں ہے۔ کیا ان کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت نہیں تھی لیکن غلط فیصلے پر لڈیاں ڈالی گئیں اگر یہ جج صاحب چیف جسٹس بن جاتے ہیں تو پھر کھوسہ نثار گلزار بندیال کا تسلسل برقرار رہے گا جو شریوں کو منظور نہیں۔ اب سپیکر اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا ہے کہ اسمبلی پوری نہیں ہے ان کے ممبران کی تعداد کو پورا کیا جائے۔ ایسا ہی خط اب پنجاب اور سندھ اسمبلی کے سپیکر بھی الیکشن کمیشن کو لکھ چکے ہیں۔ابھی تک تفصیلی فیصلہ نہیں ایا لہزا الیکشن کمیشن اس پر عمل کرے گا تو پھر یہ حکومت کو ترمیم لانے کیلیے کسی کی مدد لینے کی ضرورت نہیں پھر ترمیم ہو جائے گی۔