آپ 1918ء میں منگ ضلع پونچھ میں شیر باز خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق سدھن قوم کے مشہور خاندان جانی بیگال سے ہے۔ آپ کے والد ایک زمیندار تھے۔ آپ کی تعلیم کا آغاز مقامی سکول سے ہوا پرائمری کے بعد آپ مولانا محمد نذیر کی تحریک پر دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے ہی اس کا آغاز کیا۔ مولانا نذیر صاحب سے چار سال مستفید ہونے کے بعد آپ نے 1935ء میں لاہور کا رخ کیا اور جامعہ فتحیہ تشریف لائے۔ یہاں دو برس مولانا مہر محمد اچھروی، مولانا غلام حیدر اور مولانا سید دوران شاہ سے علوم عقلیہ میں کسب کمال کیا۔ مولانا مہر محمد اچھروی کے فیضان نظر کا ایک واقعہ پیش خدمت ہے،مولانا محمد عبدالغنی راوی ہیں کہ ایک مرتبہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع بطور ممتحن دارالعلوم پلندری تشریف لائے انھوں نے منطق کی ایک کتاب قطبی کا امتحان لینا تھا اس موقع پر مفتی صاحب نے کشمیری طلبہ کی ذہانت کی تعریف کرتے ہوئے مولانا محمد یوسف خان کا نام لیا کہ میں نے دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے دوران ’قطبی‘ کا ایک ادق مقام جو مجھے زمانہ طالب علمی اور پھر تدریس کے دوران بھی کماحقہ واضح نہیں ہوا تھا۔ میں نے عمداً یہی مقام ان کے سامنے رکھا تو انھوں نے بطور طالب علم اس کی ایسی کمال کی تشریح کی کہ عقدہ کشائی ہو گئی۔
آپ جامعہ فتحیہ کے بعد جامعہ نعمانیہ میں داخل ہوئے۔ وہاں مشکاۃ شریف اور دیگر کتب پڑھیں۔پھر 1939ء میں دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور سید حسین احمد مدنی، مولانا غلام رسول خان، مولانا اعزاز علی، مولانا ابراہیم بلیاوی جیسے اساطین علم سے کسب فیض کرکے 1942ء میں دورہ حدیث شریف کی سند حاصل کی۔ دورہ حدیث شریف میں آپ کے ہم سبقوں میں مولانا محمد اسحاق قادری، مفتی عبدالحمید قاسمی، مفتی عبدالمتین، مولانا سرفراز خان صفدر، صوفی عبدالحمید سواتی، مفتی رشید احمد لدھیانوی اور مولانا عبدالعزیز تھوراڑوی جیسے صاحبان علم تھے۔ آپ 1943ء میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب اپنے علاقے میں تشریف لائے تو اس وقت وہاں ڈوگرہ استعمار کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ واقعہ یوں ہوا کہ ایک ہندو کے ہاتھوں زمان علی نمبردار نامی مسلمان کی شہادت ہوئی۔ اس مقدمہ میں قاتل کو صرف تین سال قید کی سزا سنائی گئی اس کے رد عمل میں مسلمانوں نے بھرپور احتجاجی تحریک چلائی۔ مولانا محمد یوسف خان نے ایک احتجاجی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
چشم فلک نے اس ظلم کی کوئی شکل نہ دیکھی ہوگی کہ گائے ذبح کرنے والوں کو سات سال قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے اور ایک بے گناہ انسان کو قتل کرنے کی سزا صرف تین سال ہے۔ محض اس لیے کہ مقتول مسلمان ہے!! ایسی حکومت سے عدل و انصاف کی کیا توقع ہو سکتی ہے ۔ ڈوگرہ سامراج کے لیے ایسی تقاریر ہضم کرنا مشکل تھا چنانچہ انھیں گرفتار کر کے تین ماہ قید بامشقت کی سزا سنائی گئی جو ان کے سیاسی و تحریکی سفر کا نقطہ آغاز بنی۔ ڈوگرہ سرکار نے ان کے عزم کو متزلزل کرنے کے لیے ان کے والد محترم اور دیگر اعزاء کو بے گناہ گرفتار کیا اس کے باوجود مولانا کے پایہ استقلال میں ذرا بھر بھی لغزش نہ آئی۔ تقسیم ہند کے متصل بعد جب 1947ء میں کشمیر کا جہاد آزادی شروع ہوا تو آپ مجاہدین کے شانہ بشانہ منگ سے چڑی کوٹ تک کے محاذوں پر برسر پیکار رہے۔ جنگ بندی کے بعد آپ نے بے سروسامان مہاجرین کی آباد کاری کے لیے بیت المال قائم کیا اور اپنی بساط کے مطابق ہر ممکن دوڑ دھوپ کی۔
تقسیم ہند سے قبل ضلع پونچھ میں جمعیت علماء پونچھ کے نام سے علمائے ربانیین کی ایک تنظیم تھی جس کے امیر مولانا عبدالرحمن تھے (جو بعد میں ریاستی مفتی بھی رہے) ان کی وفات کے بعد 1960ء میں مولانا محمد یوسف خان اس کے امیر مقرر ہوئے تو آپ نے اپنی امارت کے دوران جماعت کا نام جمعیت علماء اسلام آزاد ریاست جموں و کشمیر رکھا۔ مولانا محمد یوسف خان اور ان جیسے مخلص علماء کی کوششیں اور قربانیاں تھیں کہ وہ مملکت خداداد جہاں قلات،سوات اور بہاولپور جیسی ریاستوں میں پہلے سے نافذ شدہ شرعی قوانین منسوخ کر دیے گئے تھے۔ وہاں اس نو زائیدہ ریاست میں شرعی قوانین کے نفاذ کے عملی اقدامات اٹھائے گئے جس کی بدولت آج ریاست جموں و کشمیر میں جج صاحبان کے ہمراہ علمائے کرام بطور قاضی ان کے شریک فیصلہ ہوتے ہیں۔
مولانا محمد یوسف خان ایک جید مدرس ، بہترین منتظم اور نڈر مجاہد ہونے کے ساتھ بڑے زیرک سیاست دان بھی تھے۔ آپ نے 1972ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا اور کرنل نقی خان کو شکست دے کر رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ آپ 1943ء سے 2009ء تک دارالعلوم پلندری سے منسلک رہے اور 1965ء میں جب جامعہ پلندری دارالعلوم بنا اور دورہ حدیث شریف کا آغاز ہوا تو آپ اس وقت سے 2009ء تک شیخ الحدیث کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔ 2009ء میں ان پر فالج کا حملہ ہوا علاج کے بعد طبیعت کافی بہتر ہو گئی لیکن ہر ذی روح نے ایک دن خالق کے حضور پیش ہونا ہی ہوتا ہے، سو 12 ستمبر 2010ء بعد از مغرب حرکت قلب بند ہونے پر آپ حیات جاوداں پاگئے۔ 13 ستمبر 2010ء کو نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد آپ کے فرزند مولانا سعید یوسف ان کے جانشین منتخب ہوئے۔