گذشتہ ایک سال میں صدر پاکستان کا حالیہ دورہ سب سے زیادہ کامیاب و کامران کہا جا سکتا ہے۔ صدر پاکستان براستہ عرب امارات جاپان گئے۔ عرب امارت میں شادی کی ایک خصوصی تقریب تھی۔ پاکستان سے اس میں شریک ہونے والوں کے بارے میں جو خبریں ہیں وہ سب بازبان راوی ہیں اس لئے ان سب کا نام لینے سے پہلے جملہ حقوق کے حوالہ سے دروغ گوئی بازبان راوی کو مدنظر رکھیں۔ بتایا یہ جاتا ہے کہ اس تقریب کے لئے پاکستان کے حالیہ صدر اور سابق صدر جناب نوازشریف اور جنرل کیانی مدعو تھے۔ کیا ان سب کا اکٹھا ہونا حسن اتفاق تھا یا حسن انتظام… مگر کوئی بڑی خبر نہ بن سکی۔ اتفاق سے یہ سب لوگ ہی نجیب الطرفین ہیں اس لئے راز داری بھی تو ضروری ہے۔
صدر پاکستان کا دورہ جاپان ان کے تمام پرانے دوروں کے مقابلہ پر بہت بہتر رہا۔ فرینڈز آف پاکستان کے سلسلہ میں دوستوں نے پاکستان کی بھرپور تسلی اور تشفی کی کوشش امداد یا خیرات کے تناظر میں اعلانات بڑے پر امید رہے۔ اس وقت تمام دنیا بری طرح مالی اور معاشی مسائل کا شکار ہے۔ ایسے میں دوستوں، حلیفوں اور مہربانوں کی توجہ دینا بڑی بات ہے۔ اس دفعہ صدر پاکستان خاص تیاری کے ساتھ گئے تھے۔ ان کو اندازہ نہیں تھا کہ مشرف کی سابقہ ملٹری سرکار نے ملک کی حالت اتنی ابتر کر دی ہے کہ اکیلی کوئی بھی جماعت اس کو ٹھیک کرنے کے لئے ناکافی ہے۔ اس ہی وجہ سے وزیراعظم پاکستان اپنے دوستوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ بھی شریک اقتدار ہوں اور ان کی مشکلات کا اندازہ کریں زیادہ اچھا ہوتا کہ صدر پاکستان دورہ جاپان میں حزب اختلاف کے دوستوں کو ساتھ رکھتے۔ اس طرح امداد دینے والوں کو اندازہ ہوتا کہ یہ سب لوگ سنجیدہ اور مشکل میں ہیں۔ ہمارے تمام دوستوں کو ہمارے سیاسی سماجی اور معاشی نظام کی فکر ہے اور براڈ بیس سرکار کے خواہش مند ہیں۔
وہ لٹیروں کا بھیس ہو یا کرسیوں کی ریس
پھر پھنس رہا ہے ایک سیاسی بھنور میں دیس
تفصیل ہے طویل مگر مختصر ہے کیس
بنتی نہیں ہے ہم سے حکومت براڈ بیس
(ضمیر جعفری )
اس دورہ کے دوران دو چہرے صدر پاکستان کے ساتھ نمایاں رہے ایک تو ہمارے وزیر خارجہ تھے۔ کیونکہ بیرونی معاملات ان کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں دوسرا چہرہ ہمارے سکیورٹی کے ماہر، معاہدوں کے پاسدار، معاملات طے کروانے میں خصوصی کردار ادا کرنے والے مشیر داخلہ تھے۔ ان کی کیا حیثیت تھی یا اہمیت تھی۔ اس کے بارے میں کوئی بھی جانکاری نہیں ملتی۔ اندازہ ہے کہ وہ صدر پاکستان کی سکیورٹی سے مطمئن نہ تھے۔ اس لئے ذاتی طور پر حفاظتی کردار ادا کر رہے تھے۔ پاکستان کے دوستوں کے دوستوں نے پاکستان کے آنے والے بجٹ پر بھی نظر کرم فرمائی ہے۔ پہلی دفعہ ایسا ہو رہا ہے۔ کہ پاکستانی بجٹ پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر تیار ہو رہا ہے۔ ہمارے عوام کے لئے کونسا بجٹ ہو گا۔ اس کا فیصلہ ہمارے وزیر خزانہ نے اپنی قابلیت اور تجربہ کی بنا پر کرنا ہے۔ امریکی صدر کے مشیر البروک جو چند دن پہلے جنرل مولن کے ساتھ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو معاشی، مالی اور دفاعی معاملات کے لئے 50 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ جبکہ امریکہ کی مشروط امداد ایک ارب ڈالر ہے۔ اتنی ہی امداد جاپان بھی دینے کا وعدہ کر رہا ہے۔ دیگر مہربان ملکوں میں ترکی اور سعودی عرب نمایاں ہیں۔ کل امداد کا وعدہ تقریباً 5 ارب ڈالر ہے جو اگلے دو سال میں مل سکے گی۔ جبکہ پاکستانی ماہرین معیشت کا اندازہ ہے کہ اس سال کے لئے پاکستان کو 30 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ جبکہ بجٹ کے خسارہ کو بھی کم کرنے کے لئے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی شرائط عوام کے مفاد میں بہت ہی مشکل نظر آ رہی ہے۔
صدر زرداری کو پاکستان کی معیشت کے حوالہ سے خاصی مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ قرض دینے والے بین الاقوامی اداروں کی بات ماننا بھی ضروری ہے۔ مگر اندرون ملک سخت قدم اٹھانے ضروری ہیں۔ ان میں سب سے اہم معاملہ غیر ضروری اخراجات کا ہے۔ حکمرانوں کے لئے ان اخراجات کو کم کرنا بہت مشکل ہوگا۔ اس کے لئے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ امریکہ ہمارا دوست ہمارے ملک میں انقلاب کو پسند نہیں کرتا۔ بلکہ امداد ہی انقلاب روکنے کے لئے دیتا ہے۔ اب زرداری صاحب کو فیصلہ کرنا ہے کہ انقلاب ضروری ہے۔ یا امریکی امداد اس کے بعد عوام کی قسمت کو ہو سکے گا۔
صدر پاکستان کا دورہ جاپان ان کے تمام پرانے دوروں کے مقابلہ پر بہت بہتر رہا۔ فرینڈز آف پاکستان کے سلسلہ میں دوستوں نے پاکستان کی بھرپور تسلی اور تشفی کی کوشش امداد یا خیرات کے تناظر میں اعلانات بڑے پر امید رہے۔ اس وقت تمام دنیا بری طرح مالی اور معاشی مسائل کا شکار ہے۔ ایسے میں دوستوں، حلیفوں اور مہربانوں کی توجہ دینا بڑی بات ہے۔ اس دفعہ صدر پاکستان خاص تیاری کے ساتھ گئے تھے۔ ان کو اندازہ نہیں تھا کہ مشرف کی سابقہ ملٹری سرکار نے ملک کی حالت اتنی ابتر کر دی ہے کہ اکیلی کوئی بھی جماعت اس کو ٹھیک کرنے کے لئے ناکافی ہے۔ اس ہی وجہ سے وزیراعظم پاکستان اپنے دوستوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ بھی شریک اقتدار ہوں اور ان کی مشکلات کا اندازہ کریں زیادہ اچھا ہوتا کہ صدر پاکستان دورہ جاپان میں حزب اختلاف کے دوستوں کو ساتھ رکھتے۔ اس طرح امداد دینے والوں کو اندازہ ہوتا کہ یہ سب لوگ سنجیدہ اور مشکل میں ہیں۔ ہمارے تمام دوستوں کو ہمارے سیاسی سماجی اور معاشی نظام کی فکر ہے اور براڈ بیس سرکار کے خواہش مند ہیں۔
وہ لٹیروں کا بھیس ہو یا کرسیوں کی ریس
پھر پھنس رہا ہے ایک سیاسی بھنور میں دیس
تفصیل ہے طویل مگر مختصر ہے کیس
بنتی نہیں ہے ہم سے حکومت براڈ بیس
(ضمیر جعفری )
اس دورہ کے دوران دو چہرے صدر پاکستان کے ساتھ نمایاں رہے ایک تو ہمارے وزیر خارجہ تھے۔ کیونکہ بیرونی معاملات ان کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں دوسرا چہرہ ہمارے سکیورٹی کے ماہر، معاہدوں کے پاسدار، معاملات طے کروانے میں خصوصی کردار ادا کرنے والے مشیر داخلہ تھے۔ ان کی کیا حیثیت تھی یا اہمیت تھی۔ اس کے بارے میں کوئی بھی جانکاری نہیں ملتی۔ اندازہ ہے کہ وہ صدر پاکستان کی سکیورٹی سے مطمئن نہ تھے۔ اس لئے ذاتی طور پر حفاظتی کردار ادا کر رہے تھے۔ پاکستان کے دوستوں کے دوستوں نے پاکستان کے آنے والے بجٹ پر بھی نظر کرم فرمائی ہے۔ پہلی دفعہ ایسا ہو رہا ہے۔ کہ پاکستانی بجٹ پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر تیار ہو رہا ہے۔ ہمارے عوام کے لئے کونسا بجٹ ہو گا۔ اس کا فیصلہ ہمارے وزیر خزانہ نے اپنی قابلیت اور تجربہ کی بنا پر کرنا ہے۔ امریکی صدر کے مشیر البروک جو چند دن پہلے جنرل مولن کے ساتھ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو معاشی، مالی اور دفاعی معاملات کے لئے 50 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ جبکہ امریکہ کی مشروط امداد ایک ارب ڈالر ہے۔ اتنی ہی امداد جاپان بھی دینے کا وعدہ کر رہا ہے۔ دیگر مہربان ملکوں میں ترکی اور سعودی عرب نمایاں ہیں۔ کل امداد کا وعدہ تقریباً 5 ارب ڈالر ہے جو اگلے دو سال میں مل سکے گی۔ جبکہ پاکستانی ماہرین معیشت کا اندازہ ہے کہ اس سال کے لئے پاکستان کو 30 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ جبکہ بجٹ کے خسارہ کو بھی کم کرنے کے لئے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی شرائط عوام کے مفاد میں بہت ہی مشکل نظر آ رہی ہے۔
صدر زرداری کو پاکستان کی معیشت کے حوالہ سے خاصی مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ قرض دینے والے بین الاقوامی اداروں کی بات ماننا بھی ضروری ہے۔ مگر اندرون ملک سخت قدم اٹھانے ضروری ہیں۔ ان میں سب سے اہم معاملہ غیر ضروری اخراجات کا ہے۔ حکمرانوں کے لئے ان اخراجات کو کم کرنا بہت مشکل ہوگا۔ اس کے لئے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ امریکہ ہمارا دوست ہمارے ملک میں انقلاب کو پسند نہیں کرتا۔ بلکہ امداد ہی انقلاب روکنے کے لئے دیتا ہے۔ اب زرداری صاحب کو فیصلہ کرنا ہے کہ انقلاب ضروری ہے۔ یا امریکی امداد اس کے بعد عوام کی قسمت کو ہو سکے گا۔