افغانستان میں اقبالؒ کی آہ و فغاں … (آخری قسط)

سید علی گیلانی
(چیئرمین حریت کانفرنس مقبوضہ کشمیر)
کابل کی دید اور زیارت کا وقت میرے لئے کتنا خوش گوار اور مسرت آگین تھا کہ میری آنکھیں سرمہ چیں ہو گئیں۔ یعنی ان کی بینائی اور بصارت میں اسی طرح تازگی اور افزودگی پیدا ہو ئی جیسے سرمہ لگانے سے ہو جاتی ہے۔
اقبال اس سرزمین کیلئے دعا مانگتے ہیں کہ یہ سرزمین روشن اور پائندہ رہے۔ رات کی تاریکیوں میں اسکے سمن زار دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ سہانی صبح اسکی بساطِ سبزہ میں غلطاں و پیچاں رہتی ہے۔ یہ پاک وطن، خوشیوں اور مسرتوں کا مسکن، اسکی ہوائیں شام اور روم کی ہواؤں سے بہتر ہیں یہاں کا پانی چمک دار اور یہاں کی مٹی درخشندہ اور تابندہ ہے۔ اس کی ہواؤں کی لہروں سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے۔ اس سرزمین کے راز اور اسرار کا احاطہ نہ حروف میں اورنہ کلام میں کیا جا سکتا ہے۔
مختصر یہ کہ اسکے کہساروں میں کئی آفتاب آرام فرما ہیں۔ کابل شہر کے بسنے والے آسودہ خاطر اور دل لبھانے والے موتی ہیں مگر یہ لوگ اپنے کمالات، جوہر، خوبیوں اور ایمان و یقین کی طاقت سے اسی طرح بے خبر ہیں جس طرح تلوار اپنی طاقت اور قوت سے بے خبر ہوتی ہے۔ قصرسلطانی کا نام بہت ہی د کُشا اور دل رُبا ہے زائرین کیلئے اسکی راہ کی گرد کیمیا کے برابرہے۔ اس بلند و بالا محل میں ، میں نے شاہِ افغان کو دیکھا اس طرح جیسے بادشاہ کے سامنے دردمند دل رکھنے والا کوئی فقیر ہو۔ اسکے خلق نے دلوں کی سلطنتوں کے دروازے کھول دیئے یہاں روایتی طور طریقوں والے بادشاہوں کے درباریوں کے سے رسم و رواج دیکھنے اور ہٹو بچو کی آوازیں سننے میں نہیں آئیں۔
میں انکے دربار میں ایسے ہی تھا کہ حضرت عمر فاروقؓ کے دربار میں کوئی عام انسان اور بے نوا فرد ہو ان کے کلام سے میری روح میں وزوگداز پیدا ہو گیا۔ میں نے محبت سے سرشار ہو کر ان کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔ میں نے اس بادشاہ کودیکھا وہ بڑا ہی خوش کلام اور سادہ لباس زیب تن کئے تھا۔ اپنے فرائض کی انجام دہی میں سخت کوش، نرم گفتار اور نرم مزاج اور گرم جوش تھا۔ اس کی نظروں ہی سے صدق و اخلاق ٹپک رہا تھا اس کے وجود سے، اسکی سلطنت میں دین اور حکومت دونوں استوار اور محکم دکھائی دیتے تھے۔
وہ بشر ہی تھے مگر فرشتوں سے بھی پاکیزہ تر اخلاق کے حامل تھے۔ طرزِ گفتگو اور نرم مزاجی میں یہ فقروشاہی دونوں مقامات کی اصل اور حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے۔ مشرق اور مغرب کے حالات اسکی نگاہوں میں روشن تھے، یعنی وہ حالات زمانہ اور گردوپیش کی دنیا سے بے خبر اور لاتعلق نہیں تھا۔ اس کی حکمت اورشاہانہ تدبر، مشرق و مغرب کے مسائل اور حالات سے پوری طرح باخبر اور باعلم تھے۔ مدبر اور دانا لوگوں کی طرح یہ بادشاہ شہر یار، نکتہ رس اور نکتہ دان تھا اور قوموں اور امتوں کے حال سے واقف تھا۔ اپنی گفتگو میں اس نے معانی کے دروازے کھول دیئے حکومت اور دین کے رموز و نکات واشگاف کئے اس نے مجھ سے کہا کہ دین اور ملت کیلئے جو درد، چبھن اور جذبہ میں نے آپکے اندر دیکھا اور محسوس کیا ہے اس کی بدولت میں آپکو اپنے قریب اور عزیز ترین افراد میں شمار کرتا ہوں ہر اس شخص کو جس میں محبت، نرمی، حسن اخلاق کی بوباس ہو، میری نگاہوں میں اسے ہاشم اور محمود غزنوی کا مقام حاصل کیا۔
اس اخلاق کریمانہ کے مالک، شاہ افغان کی خدمت میں، میں نے قرآن پاک کا نسخہ ہدیتاً پیش کیا۔ نسخہ کیمیا پیش کرتے ہوئے میں نے اس سے کہا کہ : اہل حق کا یہی سرمایہ ہے۔ اسکی تعلیمات میں دینی اور اخروی زندگی کی جاودانی اور ابدیت پائی جاتی ہے یعنی اسکی تعلیمات پر عمل کرنے والوں کی دنیا بھی بہتر ہوتی ہے اور آخرت کی ابدی زندگی بھی فلاح اور کامرانی سے ہمکنار ہوتی ہے۔
اس کتاب زندگی میں ہر ابتدا کی انتہا ہے یعنی یہ زندگی کے ہر راز سے آگاہ کرتی ہے۔ یہ ہر مسئلے کا کامیاب حل تلاش کرتی ہے۔ اسکی طاقت اور قوت کے بل بوتے پر حضرت علیؓ حیدر کرار نے خیبر کشا کردار انجام دیا۔ میری ان معروضات کا نشہ ا نکی رگوں میں اور خون میں گردش کرنے لگا۔ اس کا اظہار اس طرح ہوا کہ اس کی دونوں آنکھوں سے قطرہ قطرہ آنسو ٹپکنے لگے یہ اسکے دل مومن کی اندرونی کیفیت کا دیدنی اظہار تھا۔ نادر شاہ نے کہا کابل فتح کرنے سے پہلے جب میں اپنے وطن سے دور یورپ میں زندگی بسر کر رہا تھا تو بہت پریشان تھا۔ دین اور وطن کے غم میں گھلا جا رہا تھا۔ میرے اپنے وطن اور ملک کے کوہ و دشت میرے قلبی اضطراب اور بے چینی سے ناواقف تھے۔ میرے بے حساب غم و فکر سے بالکل بے خبر تھے۔ ہزار داستان کی طرح میں نے نالہ زاری کی، موسم بہار میں جوبن پر آئی ہوئی آبجو کے ساتھ میں نے اپنے اشک اور آنسو بہا دیئے۔ اس وقت قرآن کے بغیر میرا کوئی غمگسارنہ تھا اس کتاب کی قوت اور رہنمائی نے میری ہر مشکل آسان بنا دی…؎
غیرِ قرآں غم گسارے من نہ بود
قوتش ہر باب را برمن کشود
اس عالی مرتبت خسرو افغانستان کے حکیمانہ اور درد مندانہ کلام سے دوبارہ میرے قلب و ذہن میں جذبات امنڈ آئے۔ اسی گفتگو کے دوران نماز عصر کی اذان کی آواز بلند ہوئی وہ اذان جو مومن کو دنیا مافیہا سے بے خبر بنا دیتی ہے اور وہ دیوانہ وار اذان کی آواز پر سجدہ ریز ہونے کیلئے بے تاب ہوجاتا ہے۔ انتہائی اورناقابل بیان عاشقانہ سوزوگداز کے ساتھ میں نے ان کی امامت اور اقتدار میں نماز ادا کی…ع
راز ہائے آں قیام و آں سجود

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...