اس اجتناب کا طریقہ یہ ہے کہ سرکاری ملازمین ہفتے میں دو روز اپنے دفاتر کی شکل ہی نہیں دیکھیں گے۔ صبح گیارہ بجے تک ائرکنڈیشنر کے بند کئے گئے بٹن کو ہاتھ نہیں لگائیں گے اور رات آٹھ بجے کے بعد مارکیٹوں کا رخ نہیں کیا کریں گے کیونکہ مارکیٹیں ٹھیک آٹھ بجے اندھیرے میں ڈوب جایا کریں گی۔ پھر فوری کرنے کا یہ کام سوجھا گیا ہے کہ بل بورڈز کے کنکشن منقطع کر دیئے جائیں اور کسی خوشی کے موقع پر اُجالا کرنے کا اہتمام صرف دل جلاکر کیا جائے، یعنی ”اب دل جلا جلا کے اُجالا کریں گے ہم۔“ ہاں البتہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے اطمینان قلب کا اہتمام کراچی کو فراہم کی جانے والی بجلی میں تین سو میگاواٹ کی کمی کرکے ضرور کردیا گیا ہے۔
جناب! آخر یہ بجلی کا بحران پیدا کیوں ہوا ہے اور اس بحران کے بڑھتے بڑھتے بجلی کا شارٹ فال پانچ ہزار میگاواٹ تک کیسے جاپہنچا ہے۔ وزیراعظم نے اچھا کیا کہ اس بحران کے پس منظر میں 1994ءکا زمانہ بھی یاد دلا دیا۔ ویسے تو اب قوم اپنے اوپر بیتنے والے کسی ظلم کو بھولتی بھی نہیں ہے اس لئے قوم کو بخوبی یاد ہے کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور اس کے نرخوں میں اضافہ کا عذاب اس پر 1994ءمیں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی مسلط ہوا تھا۔ اس وقت تو پانی کا اتنا شدید بحران بھی نہیں تھا اور ائرکنڈیشنڈ کلچر کو بھی اتنا فروغ حاصل نہیں ہوا تھا مگر بجلی کی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی اور اس کا دورانیہ بڑھتا گیا۔ عوام نے چیخیں مارنا شروع کیں تو نجی تھرمل پاور پلانٹس کا ”بے نظیر“زرداری منصوبہ سامنے آگیا قوم کو باور کرایا گیا کہ لوڈ شیڈنگ سے نجات پانی ہے تو پھر ہمیں تھرمل پاور پلانٹس سے مہنگی بجلی کے حصول کا معاہدہ کرنے دو۔ چنانچہ عوام کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر اس معاہدے کو قابل قبول بنا دیا گیا اور پھر اس معاہدے کے صدقے کک بیکس اور کمشنوں کی بہاریں لگ گئیں اور عوام بھی مطمئن ہوگئے کہ چلو مہنگی ہی سہی، اب بجلی انہیں دستیاب تو ہونے لگی ہے۔
اگر بارہ تیرہ سال بغیر لوڈ شیڈنگ کے سکون سے گزر گئے جن میں مشرف کی جرنیلی آمریت کا سیاہ دور بھی شامل ہے تو قوم تو یہ سوچنے پر مجبور ہوگی کہ پیپلز پارٹی کی رضا مندی والی نگران حکومت کے دوران ہی بجلی کا بحران دوبارہ کیوں شروع ہوا اور پھر پیپلز پارٹی کی اپنی ”سلطانی ¿ جمہور“ نے اس بحران کو انتہاءتک کیسے پہنچا دیا۔ قوم کے اس تجسس کا جواب بھی عام دستیاب ہے اور وہ یہ ہے کہ تھرمل پاور پلانٹس کے 1994ءکے معاہدوں میں اب کمشن اور کک بیکس کی زیادہ کشش باقی نہیں رہی تھی اور رینٹل پاور پلانٹس سے شیرینی ٹپکتی ہوئی نظر آرہی تھی اس لئے قوم کو رینٹل پاور پلانٹس کے مہنگے ترین معاہدوں کی قبولیت پر مجبور کرنے کیلئے لوڈ شیڈنگ کا بحران پیدا کرنا اور پھر لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھاتے بڑھاتے پندرہ سے بیس گھنٹے تک لے جانا ہی کارگر حربہ نظر آیا چنانچہ آج اسی حربے کی عملداری ہے۔ لوگ لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے اکتا کر فریاد کرتے سڑکوں پر نکل پڑے ہیں اور پولیس کے شیر جوانوں کا ”گوجرانوالہ فیم“ تشدد برداشت کر رہے ہیں۔کارخانے، فیکٹریاں، ملیں اور کاروبار بند ہونے سے لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کے عذاب کے شکنجے میں بھی آرہے ہیں اور پانی، گیس کی قلت کا بھی سامنا کر رہے ہیں، صرف اس لئے کہ وہ رینٹل پاور پلانٹس کی مزید مہنگی بجلی خریدنے پر آمادہ ہو جائیں۔
کیا رینٹل پاور پلانٹس کی فیوض و برکات کا قوم کو اب تک اندازہ ہو نہیں چکا ہوگا۔ ذرا ماحول کا جائزہ تو لیجئے، ہمارے توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے برادر ہمسایہ ممالک ایران، چین، ترکی ہمیں سستی بجلی فراہم کرنے کو ہمہ وقت تیار بیٹھے ہیں، حتیٰ کہ اب جرمنی کی آفر بھی آگئی ہے مگر ہمارے مہربان حکمرانوں کی تان ٹوٹتی ہے تو رینٹل پاور پلانٹس پر۔ صدر زرداری تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران بھی رینٹل پاور پلانٹس ہی کے راگ الاپ رہے تھے۔ کوئی پوچھے کہ آپ سستی بجلی فراہم کرنے والوں کی جانب کیوں نہیں جاتے۔ صرف اس لئے کہ بجلی سستی ملے گی تو کک بیکس اور کمشن کی رونق بھی کم ہوجائے گی۔ آج انہیں رینٹل پاور پلانٹس کا معاہدہ کرنے دو، بجلی کا پانچ ہزار میگاواٹ کا شارٹ فال اڑنچھو ہو جائے گا۔ تو جناب! کیا آپ صرف اپنے کمشن اور کک بیکس کی خاطر پورے ملک اور پوری قوم کو عذاب سے دوچار کئے بیٹھے ہیں اور اب توانائی کے بحران کا حل سوچا ہے تو وہ بھی عوام کو مزید اذیت دینے والا۔ جبکہ فوری حل کے دوسرے راستے موجود بھی ہیں،آپ تھرمل پاور پلانٹس کے روکے گئے دس بارہ ارب روپے کے بل فوراً ادا کریں، وہ آپ کو پھر بجلی فراہم کرنا شروع کردیں گے۔ اور پھر بجلی بچانی ہی ہے تو سرکاری دفاتر میں ہفتے کی دوچھٹیاں کرکے نہیں اور عوام کو بجلی کے استعمال سے روک کر نہیں بلکہ اختیار و اقتدار کی ملی بھگت سے ہونے والی بجلی کی چوری کو روک کر بچائیں۔ واپڈا ملازمین کو 12 ارب روپے کی مفت بجلی کی فراہمی بند کرکے بچائیں۔ اقتدار کے تمام ایوانوں کے مکینوں کو ائرکنڈیشنر کی بجائے پنکھے کی ہوا کا عادی بنا کر بچائیں۔ پھر دیکھیں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے کیسے اورکتنے راستے کھلتے ہیں۔ اگر آپ کو واحد راستہ رینٹل پاور پلانٹس کا ہی نظر آرہا ہے تو پھر....
اک طرزِ تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
چاہے اس کیلئے ہمیں گوجرانوالہ فیم پولیس تشدد کا ہی بار بار سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔