چوتھی قومی جوڈشیل کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پورے ملک میں تفتیش کا نظام تسلی بخش نہیں ۔ پولیس ثبوت فراہم نہیں کر پاتی اور عدلیہ کو مجبورا ضمانتیں لینا پڑتی ہیں اور پھر عدلیہ کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس معاملے کو قومی جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کے آئندہ اجلاس مین زیر بحچث لا کر اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ تحریک کے بعد عدلیہ پر عوام کےاعتماد میں اضافہ ہوا ہے جبکہ توقعاتبھی بڑھ گئی ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ عدلیہ انتظامیہ کے کام میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ آئین نے ہر ادارے کی خود مختاری یقینی بنائی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر ادارے کو کچھ اختیارات اور ذمہ داریاں بھی سونپی ہیں۔ جسٹس افتخار محمد چوھدری نے کہا کہ آئین میں ترمیم مشکل کام ہے اسی لیے قومی جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی آئین کے اندر رہتے ہوئے عوام کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کیلیے اصلاحات لارہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں جوڈیشل افسران کی تنخواہوں میں اضافہ کریں۔ انھوں نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کیلیئے جانے کے خواہشمند لاء افسران کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ہر لاء افسر کرپٹ نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس نے بتایا کہ ایک لیڈی ہیلتھ ورکر کے خط پر سو موٹو نوٹس لیا تو اسی ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تنخواہیں تین ہزار سے بڑھ کر سات ہزار ہوگئیں۔