جنرل پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے پاکستان کے عوام، حکومت، سیاسی جماعتوں بالخصوص عدلیہ کو ڈرانے کی کوشش کی ہے کہ ”مشرف کی مزید تذلیل کی گئی تو فوجی ردعمل کا بھی خطرہ ہے فوج میں مشرف کے ساتھ کئے جانے والے سلوک پر بڑی بے چینی پائی جاتی ہے۔” اس بیان کا عمیق جائزہ لیا جائے تو یہ فوج کے بارے میں ایک غلط تصور کو ہوا دینے کے مترادف ہے کہ فوج کا سربراہ یا کوئی آفیسر خواہ کچھ کرے وہ خواہ کیسے ہی بھیانک جرم کا مرتکب کیوں نہ ہو جائے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے ورنہ فوج کے ردعمل کا سامنا ہو گا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے بھی فوج کو بلاجواز اس معاملے میں گھسیٹنے کی کوشش کی ہے کہ مشرف کے ساتھ جو کیا جا رہا ہے اس سے فوج کی بدنامی ہو رہی ہے“۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشرف کے ساتھ اب تک کیا ہوا ہے کئی مقدمات کے ایک ملزم کو صدر مملکت جیسا پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ اس کے گھر کو سب جیل قرار دیا گیا جس کا کرایہ بھی حکومت اسے ادا کرے گی۔ کتنے ملزمان کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے کتنے ملزموں کو ان کی پسند کے ناشتے اور کھانے دیئے جاتے ہیں کتنے ملزموں کو دو قیدی خدمت گزاری کےلئے دیئے جاتے ہیں۔ کیا جنرل مشرف آسمان سے اتری ہوئی مخلوق ہے؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف جو منتخب وزیراعظم تھے جو آج بھی لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں کیا ان کے ساتھ ایسا لاڈ کیا گیا تھا اگر یہ دو عوامی لیڈر نذرِ زندان ہو سکتے ہیں تو جنرل پرویز مشرف کس اعتبار سے ان سے زیادہ عزت و احترام کا مستحق ہے حقیقت یہ ہے کہ الطاف حسین نے ایک ہزار فیصد غلط بات کی ہے مشرف کے ساتھ جو کیا جا رہا ہے اس سے فوج کی بدنامی نہیں ہو رہی بلکہ جو کچھ مشرف نے کیا ہے اس سے فوج کی بدنامی ہوئی ہے۔ جنرل پرویز مشرف جن جرائم کا مرتکب ہوا ہے وہ الزامات نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے 18کروڑ لوگوں کی 36 کروڑ آنکھوں نے زندہ واقعات کی شکل میں دیکھا ہے۔ کیا ان واقعات سے انکار ممکن ہے کیا ان واقعات کو تاریخ کے صفحوں سے محو کیا جا سکتا ہے۔ کیا یہ جنرل مشرف نہیں ہے جس نے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستانی فوج کو جھونک دیا۔ پوری قوم کو ایک آفت میں مبتلا کر دیا۔ خود بیٹی کا باپ ہونے کے باوجود قوم کی بیٹی کو ڈالروں کی خاطر امریکی بھیڑیوں کے حوالے کر دیا جس پر امریکی کوئی الزام ثابت نہ کر سکے اور ایک امریکی فوجی پر بندوق اٹھانے کے جھوٹے الزام میں85 سال قید کی سزا دی گئی۔ افغان مسلمانوں کے خلاف کفار کی عملی مدد فراہم کی۔ پاکستان کی خود مختاری کا سودا کر کے پاکستانیوں پر ہی ڈرون حملوں کی اجازت دی۔ روشن خیالی کے نام پر پاکستان میں فحاشی اور عریانی کی حوصلہ افزائی کی ، پاکستان کا اسلامی تشخص مجروع کرنے کی سازش کا حصہ بنا۔ کراچی کی سڑکوں پر جب بے گناہ پاکستانیوں کے لاشے تڑپ رہے تھے تو اسلام آباد میں مکے لہرا لہرا کر اسے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ قرار دیا۔ نواب اکبر بگتی کو دی گئی دھمکی کو عملی جامہ پہنایا اور تاریخ کے کرپٹ ترین لوگوں کو پاکستان پر مسلط کرنے کےلئےNRO کیا۔ یہ سب کچھ فوج کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی کھال بچانے کےلئے فوج کو اپنے ساتھ گھسٹنے کی کوشش ضرور کی ہے۔3 نومبر 2007ءکے غیر آئینی اقدام میں وہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو بھی ملوث کرنا چاہتا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے 31 جولائی 2009 کے فیصلے سے یہ بالکل واضح ہو گیا ہے کہ 3 نومبر 2007ءکے غیر آئینی اقدامات کا مکمل طور پر ذمہ دار جنرل پرویز مشرف ہے۔ ایمرجنسی کا نفاذ عوامی مفاد میں نہیں ذاتی مفاد میں خود کو دوبارہ صدر منتخب کرانے کےلئے تھا جس میں بدنیتی عیاں ہے۔ جنرل پرویز مشرف کا یہ کہنا کہ ایمرجنسی کے نفاذ کےلئے اس وقت کے وزیراعظم، چاروں صوبائی گورنروں، وزرائے اعلیٰ چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، تینوں افواج کے سربراہوں، نائب آرمی چیف اور کور کمانڈروں سے مشاورت کی گئی تھی عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے یہ غلط قرار پا گیا ہے چنانچہ اپنے اس اقدام کی پاداش میں جو فوج کا وقار مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے فوج کو غلط طور پر بدنام کرنے کی کوشش کی ہے اس لئے اس کا کورٹ مارشل ہونا چاہئے۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان کے چار فوجی طالع آزماﺅں نے اپنے ذاتی مفاد اور اقتدار کی خاطر فوج کے حوالے سے منفی تاثرات پیدا کئے ہیں۔
اپنی نوجوانی کے دور میں میں نے فوج کا جو وقار اور احترام دیکھا ہے اب وہ اس جیسا خوش کن نہیں ہے۔ ایک وقت تھا کہ فوج کی جانب سے کوئی حکم نامہ جاری نہیں ہوا کرتا تھا، احتراماً فوج کے وقار کو ملحوظ رکھا جاتا تھا۔ ایک فوجی گاڑی کے ایکسیڈنٹ کی خبر جب میں نے اپنے صحافت کے استاد جناب ہدایت اختر مرحوم کو پیش کی تو انہوں نے ”ایک فوجی گاڑی“ کے الفاظ کاٹ کر ”ایک سرکاری گاڑی“ کر دیئے فوج کے حوالے سے کوئی بات ہوتی تو فوج کے ادارے کی بجائے ایک مقدس ادارہ یا قومی سلامتی کا ادارہ لکھا جاتا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور آمریت کی بات ہے مال روڈ کی جانب سے ٹھوکر نیاز بیگ کی جانب جانے والے ایک فوجی کانوائے کو اچھرہ نہر کی کراسنگ سے گزارنے کیلئے ملٹری پولیس کے دو جوان عام ٹریفک کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے مگر بسوں، ویگنوں اور دوسری گاڑیوں والے افراد کوئی پرواہ نہیں کر رہے تھے حتیٰ کہ ایک فوجی ٹرک کے ڈرائیور نے ایک ویگن کو بچانے کےلئے بمشکل بریک لگائی مگر ویگن ڈرائیور نے اپنی کھڑکی سے سر نکال کر اسے برا بھلا کہا۔ اس منظر نے مجھے بے حد رنجیدہ کر دیا۔ پریس کلب میں اپنے آفس میں اور کئی جگہوں پر دو تین دن لوگوں کے اس رویہ پر دکھ اور افسوس کرتا رہا تیسرے دن بزرگ صحافی حسن برجیس مرحوم نے کہا کہ ”اے کی تسی دل نال لایا اے جناں نوں آپ اپنی عزت کی فکر نہیں‘ تہانوں کی اے“ اس جملے نے مجھے ریلیکس کر دیا مگر بعد ازاں اس پر بھی افسوس ہوا کیونکہ میری آنکھوں میں تو یہ منظر سمایا تھا کہ جب کوئی فوجی کانوائے گزرتا تو لوگ راستہ دینے کےلئے نہ صرف از خود ٹھہر جایا کرتے بلکہ ہاتھ ہلا ہلا کر اسکا خیرمقدم کیا کرتے لیکن اب اگر یہ صورتحال نہیں ہے تو اس کے ذمہ دار صرف اور صرف جنرل پرویز مشرف جیسے طالع آزما ہیں اسلئے فوجی قیادت کی جانب سے ایسی صورتحال پیدا کرنے کی ذمہ داری پر بھی جنرل پرویز مشرف کا کورٹ مارشل ہونا چاہئے اگر سابق فوجی کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے۔