مرد تاریخ ساز اور مست رنگا اعزاز

خود ساختہ جلاوطن سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے چند ہفتے قبل تقریباً دس سال تک اپنے زیر نگیں رہنے والی پاکستان سرزمیں پر مکرر قدم رکھا تو ہمارا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا اور موصوف کی ایک مقبول عام ’ماتھا پکڑ‘ تصویر ہماری آنکھوں میں گھومنے لگی تھی۔ اس لمحے ہم نے سوچا تھا کہ ایک آزاد‘ خود مختار اور متحرک عدلیہ سے ماتھا لگانا مشرف صاحب کو مہنگا پڑ سکتا ہے۔ انکی جرنیلی فطرت میں ماتھا ٹیکنا شامل نہیں ہے‘ نہ وہ کسی در پر ماتھا رگڑنے پر تیار ہو سکتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ عدالتی اور سیاسی فیصلے انہیں آخرکار اپنا ماتھا کُوٹنے پر مجبور کر دیں اور انکی یہ ”ماتھا کوٹ“ ادا دیکھ کر عوام الناس استاد مصحفی کے اس شعر کی تصویر بن جائیں....
مصحفی مر ہی گیا دیکھ کے اس کی یہ ادا
جب ہتھیلی سے کل اس شوخ نے ماتھا کُوٹا
پرویز مشرف اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ پاکستانی عوام انہیں کھلے ماتھے اور کھلی بانہوں سے خوش آمدید کہیں گے اور اک ہجوم عاشقاں انکے استقبال کیلئے ہوائی اڈے پر موجود ہوگا لیکن خوش گمانیوں بھرے اسی تصوراتی خواب کو بے تعبیر پاکر ہوائی اڈے پر ہی انکی ہوا نکل گئی اور ماتھا پسینے سے شرابور ہو گیا۔
جہاز بدر ہونے کے چند گھنٹے بعد پرویز مشرف نے مزار قائد کے قریب چند سو لوگوں پر مشتمل ایک ”عوامی“ جلسے سے خطاب کیا اور فرمایا کہ انتخاب میں حصہ لینے کیلئے وہ واپس آگئے ہیں اور یہ کہ وہ کسی سے ڈرتے نہیں ہیں۔ وہ دن اور یہ دن‘ ایک ڈراﺅنی صورت حالات انکے ماتھے لگی ہوئی ہے اور انہیں چار و ناچار تین چار خطرناک مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک مقدمہ لال مسجد میں ہلاکتوںکا ہے‘ دوسرا بے نظیر قتل تیسرا بگٹی قتل کا مقدمہ ہے اور ایک مقدمہ جو پرویز مشرف کے ماتھے پرکلنک کا ٹیکہ بنا ہوا ہے وہ آئین کی دوسری بار معطلی‘ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو فرائض سے روکنے اور انہیں محبوس رکھنے کا مقدمہ ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ”ستم“ یہ کیا پرویز مشرف کے شرف میں اضافہ کرتے ہوئے ان پر قانون انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7 بھی لگا دی جس کے نتیجے میں مشرف کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہو گئے۔ یہ جرم ثابت ہونے پر انہیں 14سال کی سزائے قید ہو سکتی ہے۔ اس طرح کراچی ہائی کورٹ نے جو انکی عارضی حفاظتی ضمانت منظور کر رکھی تھی اس کا خاتمہ ہو گیا۔ 18اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے دوران وہ عدالت میں بار بار اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھتے رہے۔ کسی شاعر نے شاید کسی ایسی ہی پسینہ آور عدالتی پیشی پر یہ شعر کہا ہو گا....
نہ بن جائے مذامت کی نشانی
پسینہ پونچھئے ماتھے سے میرے
ہائی کورٹ نے سماعت کے فیصلہ لکھوانا شروع کیا تو مشرف صاحب کی چھٹی حس نے انکا ماتھا ٹھنکایا اور وہ عدالت سے فرار ہوکر بلٹ پروف گاڑی کے ذریعے اپنے بم پروف گھر میں پناہ گزین ہو گئے۔ 19 اپریل کو پولیس نے انہیں رہائش گاہ سے گرفتار کرکے پولیس ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں رونق افروز کر دیا ۔ 20 اپریل کو انہیں انسداد دہشت گردی کورٹ میں دوبارہ پیش کیا گیا۔ اس دن بھی اخباری اطلاعات کیمطابق انکے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمکتے رہے۔ اس روز عدالت نے انہیں 4 مئی تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم جاری کیا۔ اسی روز اسلام آباد انتظامیہ نے انکے چک شہزاد والے فارم ہاﺅس کو سب جیل قرار دے کر گھر کی حدود پر جیل مینول نافذ کر دیا ۔ انکے اہلخانہ کو بھی الگ کر دیا گیا اور انہیں صرف دو کمروں تک محدود کر دیا گیا۔ انکے گھر پر جیل کے تمام قوائد کا اطلاق کرتے ہوئے اسے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل کی نگرانی میں دیدیا گیا۔ مشرف کو جیل میں رکنے کا عدالتی گجر بجتے ہی انہیں قیدی بنا کر خانگی جیل کی طرف سدھار دیا گیا۔ پچھلی صدی کے ماتھا شناسی شاعر نثار نے کیا خوب کہا تھا۔
ہم آگے ہی سجھے تھے تم گھر کو سدھارو گے
جس وقت گجر باجا‘ ماتھا مرا ٹھنکا تھا
پرویز مشرف کا دعوی کہ پندرہ لاکھ پاکستانی فیس بک پر انکی سیاسی خدمات کا اعتراف کر چکے ہیں اس خطرے کے پیش نظر کہ کہیں پندرہ لاکھ ماتھوں پر بل نہ پڑ جائیں ہم مودبانہ عرض گزار ہیں کہ اس ظالمانہ داستان کے پس پردہ کوئی منفی مقصد نہیں ہے بلکہ ہم مثبت اندار میں اس منفرد اعزاز کی نشان دہی کرنا چاہتے ہیں جس نے پاکستانی تاریخ میں مشرف صاحب کو ”مرد تاریخ ساز“ بنا دیا ہے موصوف ہماری تاریخ کے پہلے سابق صدر اور سابق کمانڈر انچیف ہیں جو پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوئے جن پر دہشت گردی اور آئین شکنی کے مقدمات قائم ہوئے مفرور اور اشتہاری قرار پائے بطور ملزم رات تھانے زیر تفتیش رہے اور جن کے اپنے ہی گھر کو جیل بنا دیا گیا ہمارے حکمرانوں میں جناب مشرف جیسی کون سی ایسی تاریخ ساز شخصیت ہے جو ان مست رنگے اعزازات سے مشرف یاب ہوئی ہو افسوس کہ اس وقت کو آئین توڑ سابق صدر زندہ نہیں ورنہ وہ اپنے نصیب کو کوستا ہوا اس مرد تاریخ ساز کے زندانی آستان پر ماتھا رگڑ رگڑ کر یہ شعر پڑھ رہا ہوتا۔
ماتھا رگڑ رہا ہوں تیری آستان سے
 لکھا مٹا رہا ہوں میں‘ اپنے نصیب کا

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...