آجکل ریڈیو، ٹی وی لگالو۔ ہمارے لیڈران تقریریں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اعلان کررہے ہوتے ہیں۔”ہم انشاءاللہ نیا پاکستان بنالیں گے“
ہم آپ کو نیا پاکستان دیں گے
ہم تین ہفتے میں نیا پاکستان بنا دیں گے
بازار میں گھر کا سودا سلف لینے نکلو۔ تیز رفتار گاڑی قریب سے گزرے گی۔ اسمیں تین چار لاﺅڈ سپیکر لگے ہوتے ہیں اور جیسے ٹیپ چل رہی ہوتی ہے۔”ہم آپ کے ساتھ ہیں، آپ ہمارے ساتھ آئیے نیا پاکستان بنانے کو۔ ”نیا پاکستان“ یہ کیوں؟ یہ کیسے؟
یہ دھاڑتی ہوئے گاڑی آگے نکل جاتی ہے۔ سڑک پر کھڑے ہوئے لوگ قہقہ لگا تے ہیں۔ کوئی تالیاں بجاتا ہے۔ ریہڑے پر بیٹھا ہوا ریہڑے والا ایک موٹی سی گالی دے کر لہسن، پیاز تولنے لگتا ہے۔ خواتین جو گلیوں سے نکل کر اس وقت سودا لینے آتی ہیں اپنے پلوﺅں میں منہ چھپا کر ہنستی ہیں اور ایک دوسرے سے پوچھتی ہیں۔”تُسی کینوں ووٹ پاﺅ گے۔۔؟اسی حالاں صلاح نئی کیتی۔ پر ایہہ دسو اج اتوار دی دپیر ڈھلی اے تے ساڈے بازار وچ نہ مرغی اے، نہ چھوٹا گوشت، گاں دا گوشت کدرے کدرے ٹنگیاں ہویا اے، ایہہ کی اے۔۔ تے کیوں کیوں پیا ہوندا اے۔۔۔
اے ساڈے ملک وچ وڈے لوکی ووٹ منگدے پئے نے ایناں دیا دعوتاں تے کھانے پئے ہوندے نے۔ آخو
اب دوسری گاڑی نغمہ لگا کر نزدیک آرہی ہے۔ آپکے ووٹ کا صحیح حقدار۔۔آپ کے علاقے کا۔۔۔۔
میرا دل چاہتا ہے میں ایک گاڑی روک کر انہیں کہوں بیٹا۔ برخوردار ہمیں نیا پاکستان نہیں چاہئے۔
ہمیں، ہمارا پرانا پاکستان لوٹا دو۔ کسی میں ہمت ہے؟
کوئی ایسا لیڈر ہے جو ہمیں وہ پرسکون پاکستان واپس کردے جس میں اپنائیت تھی۔ جس میں سکون تھا۔ جو ہماری پناھ گاہ تھی۔ ہم۔ ہم۔ یعنی میرا گھرانہ مہاجر بن کر پاکستان آیا تھا۔ ہم پاکستان کو اپنی پناہ گاہ، اپنا پرسکون ٹھکانہ سمجھتے تھے۔ ہم نے پاکستان بنتے دیکھا تھا۔ اور ہم نے اپنے گھر میں افراتفری بھی دیکھی تھی۔ مجھے اپنی زندگی کا وہ دن کبھی نہیں بھولتا جب ہم اپنے بڑے بھائی اور ان کے دوچار دوستوں کے ساتھ شملہ جانے والی سڑک پر آن کھڑے ہوئے تھے۔ یہاں سے ہمارے قائداعظم نے گذرنا تھا۔ دو چمکتی ہوئی کاریں ہمارے نزدیک آگئیں۔ میرے بھائی آصف محمود نے نعرہ لگایا تھا۔ (بھائی اسلامیہ کالج لاہور میںپڑھتے تھے اور گرما کی چھٹیوں میں گھر گئے ہوئے تھے) انہوں نے گاڑی جیسے روک لی۔ بھائی غلام حسین نے مجھے اٹھایا اور قائداعظم کی گاڑی کے قریب کردیا۔ گاڑی کا دووازہ کھلا قائداعظم نے مسکرا کر ماتھے پر ہاتھ رکھ کر جیسے سلام کا جواب دیا بھائی نے نعرہ لگایا ”آفتاب سیاست“ جیسے پہاڑ گونج اٹھے زندہ باد۔ زندہ باد۔ اردگرد بہت لوگ آگئے۔وہاں نہ پولیس تھی نہ کوئی لاٹھی والا قائداعظم ایک مسکراہٹ ہمیں دے کر گاڑی بڑھا لے گئے دوسری تیسری گاڑی بھی گذر گئی۔ قائداعظم کی وہ مسکراہٹ ہمیشہ میرے ساتھ رہی۔ بہت بعد مجھے اس نعرے کا مفہوم سمجھ آیا ”آفتاب سیاست“ بھائی نے ٹھیک ہی کہا تھا وہ سیاست کے آفتاب بککہ مہتاب بھی تھے وہ شملہ کانفرنس جارہے تھے۔ ہمارے ہاں بھائی کے دوست جو ان کے ساتھ ہی کالج میں پڑھتے تھے، گرمیاں گذارنے وہ بھی آجاتے تھے۔ میرے ابا جی بھائی کے دوستوں کیلئے ایک فلیٹ علیحدہ لے لیتے تھے۔ وہ کتنے پُرسکون دن تھے قائداعظم اور انکی بہن شملہ جا رہے تھے شاید دو یا تین گاڑیاں تھیں۔ کوئی فوج کوئی پولیس وہاں نہیں تھی۔ ہم لوگ بھی نہتے تھے۔ بس لوگوں میں ایک جذبہ تھا کہ ہم ”نیا پاکستان“ بنائینگے۔ پھر پاکستان بن گیا۔ ہم سب خوش تھے۔
پھر ہمیں پتہ لگا ہم پاکستان جائینگے۔ قائداعظم نے ہمارے لئے پاکستان بنا دیا۔ ہم ابھی تک ہندوستان میں رہتے تھے۔ مگر ہندوستان کے کچھ شہروں، کچھ علاقوں کو پاکستان کا نام دیا گیا ہے۔ ہمارے گھر میں بہت خوشی تھی۔ ہم سب پاکستان جانے کی تیاری کرنے لگے۔ مجھے یہ بھی یاد ہے میری آپو اس روز کوئلے والے اوون میں ”کھل ٹھک“ بنوا بنوا کر رکھ رکھ رہی تھیں۔ پھر انہی دنوں میں ہمارے ہاں کتنے فوجی آگھسے اور آرڈر دیا گیا ”جلدی سے گھر سے نکل کر ہمارے ساتھ چلیں“ میری امی نے مجھے ایک جوجی کے ساتھ لالہ تلسی کے گھر بھجوایا کہ یہ چابیاں گائے کی کوٹھڑیوں کی ہیں۔ کہیں وہ بھوکی پیاسی اندر ہی نہ رہ جائیں۔ ہم لوگ فوجی بیرکوں میں پہنچا دئیے گئے۔ پکا ہوا کھانا کچھ بستر وغیرہ ساتھ لئے گئے جو سپاہی اٹھا لائے۔ اسکے بعد مڑ کر ہم نے اپنا گھر نہیں دیکھا۔ ابا جی نے اپنے لوگ بھجوا کر چند بکس کپڑوں کے منگوائے اور برتن۔ اور بس ہمارے گھر میں کچھ پہاڑی مسلمانوں کو جگہ دیدی گئی۔ سنا ہے ہندو ان پہاڑی مسلمانوں کو مارنا چاہتے تھے.... کہ جلدی یہاں سے پاکستان جاﺅ ہمارا علاقہ خالی کردو۔ ہمارے گھر میں جہاں سے ہمیں فوجی لیکر گئے تھے ہمارے پھوپھو کا خاندان بھی تھا جو لاہور گرمیاں گذارنے گئے تھے۔ چند مسلمان بچیاں اور بھی تھیں۔ کچھ خواتین نے اپنی بچیاں اور پیسے میری اماں کو بھجوا دیئے تھے کہ ہم پاکستان جاکر آپ سے لے لیں گے۔ہم گھروں سے نکل کر کیمپوں میں پہنچا دیئے گئے اور انبالہ کیمپ سے بذریعہ گاڑی ہمیں لاہور پہنچا دیا گیا تھا۔ میں جو اتنی لمبی بات لکھے چلی جارہی ہوں۔ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں آئے تو ہم اسے پاکستان ہی کہتے تھے، نیا ملک نہیں مگر اب میں دیکھتی، سنتی ہوں۔ جو لیڈر بھی اٹھتا ہے، کہتا ہے۔ ”ہم نیا پاکستان بنائینگے“ بھئی پاکستان تو بن چکا۔ برسوں ہوگئے۔ اب کیا بناﺅ گئے؟ اور کیوں؟ یہ کیوں نہیں کہتے کہ ”پاکستان کو بہتر بناﺅں گا اسکے اندر فلاں فلاں بہتری لاﺅنگا“
نئے پاکستان کا سنتے ہی میری روح کانپ جاتی ہے کیا پھر ہمیں مہاجر کیمپوں میں رہنا پڑیگا۔ ہمیں بھوک اور پیاس لگے گی‘ ہمارے پاس بچھونے بھی نہیں ہونگے۔ ہم مہاجر کہلوائیں گے۔ ہمیں گاڑی میں گذرتے ہوئے انہیں علاقوں سے گذرنا پڑیگا جہاں مسلمانوں کے کٹے ہوئے لاشے پڑے ہونگے۔ لوگ ہمیں مہاجر کہیں گے۔ ہم پاکستان کے باسی نہیں۔ پناہ گزین کہلوائیں گے۔۔۔ ہم جو دکھ بھگت چکے آپ ہمیں پھر یاد کرائیں گے۔ خدا کے لئے پاکستان کو خوشحال، باوقار، باعزت بنانے کا نعرہ لگاﺅ میرے لیڈرو۔ یہ ”نئے پاکستان“ کا ذکر کیوں کر رہے ہو۔ اسی نعرے میں پہلے مشرقی پاکستان ہم سے دور ہوچکا۔ اب کیا چاہتے ہو؟ اب اسے مزید نہ کاٹو۔ اب اسکے حصے بخرے نہ کرو۔ بس کرو بہت ہوگئے نعرے۔
نیا پاکستان ؟
Apr 24, 2013