بدھ ‘ 13 جمادی الثانی 1434ھ ‘ 24 اپریل2013 ئ

 الیکشن مہم میں سیاستدانوں کی ایک دوسرے پر الزام تراشیاں اور بیان بازیاں اپنا ایک سماں باندھ رہی ہیں۔ جو اب آں غزل کے طورپر ایسے ایسے ارشادات سننے کو پڑھنے کو ملتے ہیں کہ ہم سمیت عوام کی اکثریت انگشت بداندں ہے کہیں سونامی خان سب مخالفین کو آﺅٹ کرکے انکی خواہشات کا چراغ بجھا کر تاحیات اپنی اقتدار کی اننگ کھیلنے کا دعویٰ کرتا ہے تو دوسری طرف شیر کی دھاڑ سے سارا جنگل گونجتا نظر آتا ہے جو اپنے راستے میں ہر آنیوالے کو کچا چبا کر کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا ہے،کہیں سے تیروںکی سنسناہٹ سنائی دیتی ہے اور مخالفین کے کیمپوں پر پانچ برسوں میں بچے کھچے تیر برسائے جارہے ہیں۔کہیں اسلام آباد کے راہی کتاب کو اٹھائے عوام کو اپنے ساتھ جنت براہ راست اسلام آباد لے جانے کے دعوے کر رہے ہیں۔ کچھ بے چارے اپنی پھوک نکلی سائیکل پر سوار ان دیکھی راہوں پر عوام کو خوابوں کی دنیا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور کہیں شومئی قسمت کا شکار لیلیٰ کے محمل کا متلاشی جیل کی سلاخوں میںکھڑا سارا تماشہ دیکھ رہا ہیں یہ سب کچھ تو الیکشن ڈرامہ کے پلاٹ کا حصہ ہیںاور ضروری بھی مگر اسکے ساتھ ساتھ جب یہی رہنما” انّی پادیاں گے“ کے ولن ٹائپ نعرے لگاتے ہیں اور پورے نظام کو اُلٹ پلٹ کرنے اور نیا ملک بنانے کے دعوے کرتے ہیں تو ڈر لگتا ہے کہیں ان کی ان جاہلانہ گرم گفتاریوں سے کوئی سوئی ہوئی”ڈائن“ نہ بیدار ہوکر جمہوریت کی راہ میں آن کھڑی ہو اور سب کی راہ کھوٹی کردے۔بعض رہنماﺅں کے بیانات پڑھ کر لگتا ہے کہ انہوں نے ابھی سے ہی خود کو منتخب وزیراعظم یا صدر سمجھ لیا ہے اور بڑے کروفر کے ساتھ وہ الٹا لٹکا دیں گے‘ ٹھیک کر دینگے اور مال واپس نکال لیں گے کے احکامات نما بیانات جاری کررہے ہیں۔ انہیں بھی غور کرنا چاہیے کہ....جنہیں خدا کی طرح بولنے کی عادت ہےانہیں زبان بشر میں کلام کرنا ہےبہتر یہی ہے کہ سب سیاسی راہنما جمہوری عمل میں حصہ لیں اور بے صبری و نادیدہ پن کا مظاہرہ نہ کریں جس کو جو حصہ ملنا ہے وہ مل کر رہے گا اسلئے امن، آشتی اور ملک میں پیار و محبت کی فضا پیدا کریں تاکہ 11مئی کو عوام پُر امن طورپر اپنی آنیوالی قیادت کا انتخاب کریں....ابھی تاروںسے کھیلو چاند کی کرنوں سے اٹھلاﺅملے گی” الیکشن “ کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ٭....٭....٭....٭ علامہ طاہر القادری کے حامیوں نے گزشتہ روز الیکشن بائیکاٹ مہم کے سلسلے میں ایک ریلی نکالی جبکہ علامہ کا کہنا ہے کہ 11مئی کو عوام پولنگ سٹیشنوں کے باہر دھرنادیں گے۔لگتا ہے اسلام آباد” شہادت پروف کنٹینر مارچ“ کی ناکامی کے بعد علامہ موصوف نے چپ کا رکھا ہوا روزہ توڑ دیا ہے اور عوام ایک بار پھر ان کی گلفشانی سے محفوظ ہوں گے۔اگر علامہ کو اتنا کامل یقین ہے کہ عوام11مئی کو بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کی بجائے انکے حکم کے مطابق احتجاجی دھرنادیں گے تو کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ علامہ الیکشن میں حصہ لیتے اور ملک بھر سے امیدوار جو 62اور63 پر پورا اترتے انکو کھڑا کرتے مگر خاکم بدہن یہاں مخالفین شور مچاتے ہیں کہ 62اور63 پر تو خود علامہ بھی پورے نہیں اترتے ہیں۔بقول شاعر.... پوچھو تو انہیں عمل کے ھجے نہیںآتے باتوں کے کریں قصر پہ جو قصر کی تعمیر نجانے کیوں ملک میں افراتفری، قتل و غارت سے گھبرا کر جان بچا کر ملک سے بھاگنے والے اچانک باضمیر اور محب وطن بن کر بغیر دوہری شہریت چھوڑے پاکستان میں سب کو سیدھا کرنے کا مشن لیکر کیوں آ پدھارتے ہیں؟اگر یہ لوگ ایسے ہی مخلص ہیں تو اپنے وطن میں آکر عوام کیساتھ رہ کر انکے دردوغم میں انکا سہارا کیوں نہیں بنتے‘ دکھوں کا مداوا کیوں نہیں کرتے۔ اسلام صرف جبہ و دستار سجانے کام ہی نہیں یہ تو انسانوں کو دکھ درد ،پریشانیوں اور مشکلات سے نکالنے والا دین ہے۔کاش کوئی اسلام کے درس رحمت کو بھی عام کرے۔٭....٭....٭....٭ پاکستانی کی قدرتی خوبصورتی کو محفوظ رکھنے کیلئے کام کرنا ہوگا۔امریکی سفیر کی ”ارتھ ڈے“ پر بات چیت۔ گزشتہ روز دنیا بھر میں ” یورم الارض“ زمین کا دن منایا گیا۔ زمین جو حضرت آدمؑ کی جائے پناہ ہے جہاںاولاد آدمؑ بستی ہے۔حکمرانی کرتی ہے اس زمین پر جنگلات، پہاڑ،دریا،صحرا،سمندر میں رنگ برنگی حیات انسانوں کی بھلائی اور خدمت میں مصروف ہے کیا جانور،چرند، پرند اور درندے سب اس زمین کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں مگر جب سے انسانوں سے بے دردی سے اس زمین پر قائم مناظر فطرت کو قدرت کی دلآویزی کو جنگلات کو پہاڑوں کو دریاﺅںاور سمندروں کو اپنی مرضی سے نہایت بیدردی سے لوٹنا،کاٹنا اور آلودگی سے برباد کرنا شروع کردیا تو یہ زمین بھی انسانوں سے روٹھنا شروع ہو گئی ہے۔ کہیں زلزلے‘ کہیں طوفان‘ کہیں خشک سالی‘ یہ سب زمین کی طرف سے اظہار ناراضگی ہی تو ہے‘ وہ اپنا تحفظ چاہتی ہے‘ بقا چاہتی ہے اس لئے سائنسدانوں نے بنی آدم کو خبر دار کرنا شروع کردیا ہے کہ اس زمین کو اگر قائم رکھنا ہے اس پر رہنا ہے تو اسے بچانا ہوگا ورنہ اولاد آدم کی یہ ” آخری جائے پناہ“ بھی تباہ ہوگئی تو کہیں پھر ہمارے رہنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ ہمارے ملک مناظر فطرت سے مالا مال ہے فلک بوس پہاڑ،خوبصورت ہرے بھرے جنگلات، وادیاں، سمندر کا وسیع کنارا،صحرا کی بیابانی، سب کچھ یہاں موجود ہے مگر ماحول اور زمین کے دشمنوں نے اسکو برباد کرنے میںکوئی کسر نہیں چھوڑی لکڑ مافیا نے جنگلات کو برباد کردیا ،بحری اور سیمنٹ بنانے والوں نے پہاڑ کاٹ ڈالے اور کارخانے والوں نے دریاﺅں کو فلتھ ڈپو بنادیا ٹاﺅن پلاننگ کرنے والوں نے کھیتوں کو آبادیوں میں تبدیل کردیا اور عوام بھی کسی سے پیچھے نہیں کھلے عام جابجا کچرے کے ڈھیر انہی کی لا پرواہی کا کرشمہ ہے۔تفریحی مقامات پر چلے جائیں تو دیکھ کر دل گھبراتا ہے کوئی روکنے والا نہیں ،اگر ہم نے اپنے زمین کی قدر نہیں کی اور اسے برباد ہونے سے نہ بچایا تو پھر کرہ ارض کے باسیوں کو بھی تباہی سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔اسلئے ہماری تو یہی دعا ہے .... زمین کی گود رنگ سے امنگ سے بھری رہے خدا کرے یہ کہکشاں یونہی سجی رہے

ای پیپر دی نیشن