لاہور (شہزادہ خالد) 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند سینکڑوں سیاستدانوں پر لٹکتی احتساب کی تلوار ہٹ چکی ہے۔ لاہور کی احتساب عدالتوں میں اب صرف 3 سیاستدانوں کے خلاف ناجائز اثاثہ جات بنانے کے الزام میں ریفرنس زیر سماعت ہیں ان میں چودھری ذوالفقار، مشتاق اعوان اور طارق ڈنگہ شامل ہیں۔ تینوں سیاستدان ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔ مشتاق اعوان نے 265k کے تحت بریت کی درخواست دے رکھی ہے۔ چودھری ذوالفقار کیس میں گواہوں کے بیانات قلمبند کئے جا رہے ہیں۔ احتساب عدالتیں جاوید ہاشمی، جہانگیر بدر، حاکم علی، سہیل ضیاءبٹ، منظور وٹو سمیت متعدد سیاستدانوں کے خلاف دائر ریفرنس کی سماعت کر چکی ہیں۔ نیب آرڈیننس 1999ءکے تحت صوبائی دارالحکومت میں قائم احتساب عدالتوں نے 13 برسوں کے دوران 419 ریفرنسوں کے فیصلے کئے ہیں جن میں سے 130 ریفرنسوں میں ملزمان کو قید و جرمانے کی سزائیں سنائی گئیں، 86 ریفرنسو ں میں ملزمان کو بری کیا گیا، 56 ریفرنسوں میں نامزد ملزمان کی جانب سے دائر پلی بارگینگ کی درخواستوں کی حتمی منظوری دی گئی، 169 ریفرنس نیب حکام کی ہداےات پر ختم کر دیئے گئے۔ 28 ریفرنس نیب حکام نے خود واپس لے لئے جبکہ 9 ریفرنس ملزمان کی وفات کے باعث بند کر دئیے گئے۔ مذکورہ عدالتوں نے آٹھ سال پرویز مشرف کے آمرانہ اور پانچ سال پیپلز پارٹی کے سیاسی نظام کے تحت کام کیا ہے۔ اس پانچ سالہ دور میں صرف 34 ملزمان کو قید و جرمانے کی سزائیں جبکہ 52 کو بری کرنے کے احکامات جاری کئے گئے اس کے برعکس مشرف دور کے آٹھ سالوں میں انہی عدالتوں نے 88 ملزمان کو سزا سنائی اور صرف 42 کو بری کیا تھا۔ احتساب عدالتوں نے 245 فیصلے مشرف دور اور 174 پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کئے ہیں۔ مشرف دور میں پلی بارگینگ کی 42 درخواستیں منظور ہوئیں، 12 ریفرنس نیب نے خود واپس لے لئے اور 75 نیب کی درخواست پر ختم کر دئیے گئے، ایک ریفرنس ملزم کے فوت ہونے کی بنا پر بند کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 174 ریفرنسوں کے فیصلے کئے گئے ہیں جن میں سے 42 سزاﺅں اور 52 ملزموں کی بریت پر ختم ہوئے۔ پلی بارگینگ کی 14 درخواستوں کی منظوری دی گئی، 16 ریفرنس نیب نے ازخود واپس لے لئے، 42 نیب حکام کی درخواست پر ختم کر دئیے گئے جبکہ 8 ریفرنس ملزمان کے فوت ہونے کی بنا پر بند ہو گئے۔ مشرف دور میں ان عدالتوں نے جن ملزمان کو سزائیں سنائیں ان میں زیادہ تعداد سیاستدانوں کی تھی اس دور میں سزا پانے والوں میں منظور وٹو، ہاشم بابر، انور سیف اللہ خان، حاکم علی زرداری، اختر علی وریو، ریاض فتیانہ، اکبر علی بھٹی، رانا تنویر حسین، چودھری حاکم علی اور حاجی نواز کھوکھر وغیرہ شامل ہیں جبکہ خالد کھرل، خوش اختر سبحانی اور اختر علی وریو وغیرہ ان سیاستدانوں میں شامل تھے جو اس دور میں احتساب عدالتوں سے بری ہوئے تھے۔ مشرف دور کے برعکس پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں کسی قابل ذکر سیاستدان کو سزا نہیں سنائی گئی۔ اس دور میں مذکورہ عدالتوںنے جن سیاستدانوں کو بری کرنے کے احکامات دئیے ہیں ان میں جاوید ہاشمی، جہانگیر بدر، چودھری حاکم علی، رانا نذیر احمد، سہیل ضیاءبٹ اور غلام مرتضیٰ کھر وغیرہ شامل ہیں۔ مقامی احتساب عدالتوں نے سب سے پہلا فیصلہ سردار عارف نکئی کے خلاف دائر ریفرنس میں دیا تھا۔ عدالت نے ان کی جانب سے دائر پلی بارگینگ کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے انہیں 17 دسمبر 1999ءرہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ عارف نکئی کے علاوہ چودھری شیر علی اور میاں منظور وٹو بھی پلی بارگینگ کے ذرےعے رہائی پانے والوں میں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں نیب حکام نے جن سیاستدانوں کے خلاف دائر ریفرنس ازخود واپس لے لئے ان میں چودھری شیر علی، چودھری عبدالحمید اور طارق انیس وغیرہ شامل ہیں۔