گھوٹکی کی سیاست پر مہر گروپ کاغلبہ

غلام سرور شر
ضلع گھوٹکی ایک عشرے سے قبل تک ضلع سکھر کا حصہ تھا ۔ مہر سرداروں کی خواہش پر اسے ضلع کی حیثیت ملی تو ضلعی دفاتر گھوٹکی شہر کے بجائے میرپور ماتھیلو میں تعمیر ہوئے اس ضلع میں شر، پتافی ، چاچڑ ، بوزدار ، لغاری ، مہر ، لوند ، دھاریجو ، ڈہر سمیت متعدد قبائل اور ان کے سردار رہائش پذیر ہیں اور ضلع کی سیاست پر ان کا تسلط ہے زیادہ مناقشہ مہر اور لوند قبائل میں ہوتا ہے جبکہ یہاں موجود سوئی اور بھرچونڈی کی درگاہیں بھی اہمیت کی حامل ہیں ۔ ضلع گھوٹکی کے مہر اور لوند تین پشتوں سے ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں اور دونوں خاندان ہمیشہ ایک دوسرے کو الیکشن میں شکست دینے کے لئے کوشاں رہتے ہیں الیکشن 2013میں این اے 200پر پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار احمد خان لوند تھے جبکہ ان کے مقابلے میں کوئی مضبوط امیدوار نہیں تھا اسطرح سردار خالد احمد لوند کی جیت یقینی تھی لیکن پیپلز پارٹی کے این اے 201کے لے امیدوار سردار علی گوہر خان مہر نے این اے 200پر بھی کاغذات نامزدگی جمع کرا رکھے تھے مہر قبیلے کے چیف سردار محمد بخش خان مہر پی ایس آٹھ خانگڑھ سے امیدوار ہیں انکے مقابلے میں پیپلز پارٹی چھوڑ کر فنکشنل مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنے والے سردار بابر علی لوند کے آنے کے بعد مہر برادران کو موقع مل گیا کہ بابر علی لوند ان کے بھائی نادر علی لوند جو سردار خالد احمد کے چچا زاد بھائی مرحوم دادن خان لوند کے بیٹے ہیں کو خالد احمد خان مہر برادران کے مقابلہ سے روکے ورنہ سردار علی گوہر خان مہر سردار خالد احمد لوند کا مقابلہ کرینگے اس طرح کئی ہفتوں کی کشمکش کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت نے سردار خالد احمد لوند سے پیپلز پارٹی کا ٹکٹ واپس لیکر سردار علی گوہر مہر کو این اے دوسو اباڑو ، ڈہرکی ، میرپور ماتھیلو پر اپنا امیدوار نامزد کردیا ہے جن کے بعد سردار خالد احمد لوند کے حمایتی پیپلز پارٹی کے پی ایس پانچ اباڑو سے امیدوار جام مہتاب حسین ڈہر اور پی ایس سات ڈہرکی سے امیدوار سردار احمد علی پتافی کو پریشان لاحق ہوگئی ہے کہ سردار علی گوہر مہر ان کی حمایت کرینگے یا اپنے پرانے اتحادیوں کو سپورٹ کرینگے جن میں پی ایس پانچ کے امیدوار آصف علی شاہ جو پہلے ن لیگ میں تھے اور مقامی سطح پر مہر گروپ کا بھی حصہ تھے جبکہ پی ایس سات پر سردار رحیم بخش بوزدار ان کے بھائی سردار چاکر بوزدار جو پہلے فنکشنل مسلم لیگ میں شامل تھے اور ضلع میں مہر گروپ کی حمایت کرتے تھے شامل ہیں ۔ سردار رحیم بخش بوزدار مہر برادران کی حمایت سے تین چار بار ایم پی اے منتخب ہوچکے ہیں ۔ اور مہر برادران بھی اپنے اتحادیوں کے لئے پیپلز پارٹی کی قیادت سے مذکورہ امیدواروں کے لئے ٹکٹ کی درخواست کرینگے اگرایسا نہیں کرینگے تو دونوں اتحادی ان سے الگ ہوجائینگے اس کے علاوہ پےر عبدالحق عرف میاں مٹھو بھرچونڈی جو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر دو مرتبہ ایم این اے منتخب ہوچکے ہیں اس مرتبہ ٹکٹ نہ ملنے پر اعلان کرچکے ہیں کہ وہ جام متہاب حسین ڈہر کے مقابلہ میں پی ایس پانچ پر انتخاب لڑینگے ان کو بھی سردار علی گوہر مہر کی حمایت حاصل ہے اس طرح مہر سردار بھی اتحادیوں کو راضی کرنے کی کوشش میںہیں دونوں صوبائی سیٹیں علی گوہر خان مہر اپنے حامیو ںکو کامیاب کراکر پیپلز پارٹی کی قیادت کو باور کرائینگے کہ پورے ضلع پر ان کی گرفت مضبوط ہے اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے پرانے ورکرز پریشان ہیں کہ بڑے سرداروں سے ملنے خانگڑھ کو ن جائیگا ۔
اب سردار خالد احمد لوند آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑینگے اور وہ فنکشنل مسلم لیگ کے سربراہ پیر صاحب پگارو ، تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی اور نادراکمل لغاری کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو کانٹے کا مقابلہ ہوگا ۔ دوسری طرف شر قبیلے کے سرداروں شہریار شر نے بھی جو پی ایس پانچ پر امیدوار ہیں سردار علی گوہر خان مہر سے حمایت کے لئے رابطہ کیا ہے اگر مہر سردار نے ان کی حمایت نہیں کی تو وہ قومی اسمبلی کے امیدوار سردار خالد احمد لوند کی حمایت کرینگے اس کے بدلے میں پی ایس پانچ پر سردار خالدلوند کی حمایت کرسکتے ہیں ۔ پی ایس سات پر دس جماعتی اتحاد کے امیدوار پیر عبدالخالق سجادہ نشین بھر چونڈی شریف ہیں جبکہ سردار اکبر شر بھی مسلم لیگ (ن ) کی طرف سے ٹکٹ نہ ملنے کے بعد آزاد امیدوار طور پر انتخاب میں حصہ لینگے اس طرح سخت مقابلوں میں کون جیت پائیگا ؟ جو بھی امیدوار جےتے گا اسے بمشکل چند چند سو ووٹو ں کی برتری ملے گی یہاں اس بار بدلتی صورتحال میں مقابلے کانٹے کے ہوں گے ۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...