نوازرضا
گذشتہ ہفتے قومی افق پر اہم واقعات ہوئے ہیں جو ملکی سیاسی منظر پر اثرات مرتب کر رہے ہیں نواز شریف حکومت قائم ہوئے 11ماہ ہونے کو ہیں لیکن وہ پچھلی حکومتوں کی پیدا کردہ دلدل سے نکل پا نہیں رہی ۔ اس دوران وزیر اعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی پر اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا جس میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹنینٹ جنرل ظہیرالاسلام نے شرکت کی یہ اجلاس تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے جنگ بندی ختم کرنے کے اعلان کے بعد منعقد ہوا یہ اجلاس بظاہر حکومت اور فوج کے درمیان ’’تنائو‘‘کے ماحول میں ہوا لیکن ملک کو درپیش چیلنجوں نے سیاسی و عسکری قیادت کو مل بیٹھنے کاموقع فراہم کر دیااس اجلاس میں یہ بات خاص طور پر نوٹ کی گئی ہے دونوں اطراف’’ برف‘‘ پگھل رہی ہے جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے اس بات کی وضاحت کہ’’ وہ فوج کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘‘ اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان ’’فاصلے اور دوریاں ‘‘ ختم ہو رہی ہیں۔ اگلے ہی روز وزیر اعظم محمدنواز شریف کا کاکول میں پاسنگ آئوٹ پریڈ سے ’’معنی خیزخطاب‘‘اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ فوج اور اس کی قیادت کے بارے اپنے جذبات کا برملا اظہار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے جہاں میجرعزیز بھٹی ،کیپٹن سرور شہید اور میجر شبیر شریف جیسے عظیم سپوتوں کی ملک و قوم کیلئے خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا وہاں انہوں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا بھی خاص طور پر ذکر کیا ۔اگلے ہی روز وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحق ڈار فوجی قیادت سے قومی بجٹ2014-15ء میں اس کی ضروریات کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے لئے جی ایچ کیو پہنچ گئے پچھلے ایک ہفتے کے دوران وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں ہونے والی پیش رفت سے ’’مطلع‘‘ خاصا صاف ہو گیا ہے ۔ مارگلہ کی پہاڑیوں پر بادل چھٹ گئے ہیں لیکن ابھی خصوصی عدالت کی کارروائی کا کیا انجام ہو گااس حوالے سے جنرل(ر) پرویز مشرف کے ’’سیاسی مستقبل‘‘ پر ابہام پایا جاتا ہے ۔ ان کے اچانک کراچی چلے جانے سے ابھی یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ جنرل (ر) مشرف کی بیرون ملک روانگی کا وقت قریب آگیا ہے ۔اس دوران تجزیہ نگاروں کی یہ رائے بھی سامنے آئی ہے کہ حکومت کے دواہم رہنمائوں نے فوجی قیادت کو جنرل (ر) مشرف کو خصوصی عدالت میں ’’فرد جرم‘‘ عائد ہونے کے بعد بیرون ملک جانے کی جواجازت دینے کی کمٹمنٹ دی تھی اس کا مسلم لیگ(ن) میں لحاظ نہیں رکھا گیا۔ عام تاثر یہ تھا کہ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی تقرری کے بعدحکومت اور فوج اہم قومی ایشوز پرایک ہی ’’صفحہ‘‘ پر ہوگی ، ابتداء میں بڑی حد تک یہ تاثر برقرار بھی رہا۔تین ماہ سے زائد عرصہ آرمڈ فورسزانسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں جنرل (ر)پرویز مشرف کے قیام سے فوجی قیادت اور حکومت کے درمیان تحمل پر مبنی تعلقات کار کا اندازہ لگایا بھی جا سکتا ہے۔ لیکن اس صورت حال میں اس وقت تبدیلی پیدا ہوئی جب سابق صدر پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے کی اجازت کے معاملے پر دو وفاقی وزراء کے کے تند و تیز بیانات کے بعد آرمی چیف نے تربیلہ میں بین السطور تمام ادروں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ’’فوج تمام اداروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے لیکن اپنے ادارے کا بھی بھر پور تحفظ کرے گی ‘‘ سیاسی حلقوں میں فوج کے سربراہ کے بیان سے اپنے اپنے مطالب نکالے گئے ۔ بعض سیاسی رہنماؤں نے یہ مؤقف بھی دوہرایاکہ اس میں کیا شبہ ہے جنرل راحیل شریف نے اپنے ادارے کے عظمت و وقار کی بات کی ہے کسی فرد واحد کی نہیں۔ خواجہ آصف کووزارت دفاع کا قلمدان سپریم کورٹ میں طلبی کے بعد تفویض کیا گیا تھا۔ اب ان کے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیاں بھی کی جارہی ہیں ۔ ممکن ہے وزیر اعظم وزارت دفاع کا قلمدان واپس اپنے پاس رکھ لیںاور یہ اقدام عسکری قیادت کیلئے ’’آسودگی‘‘ کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔
نواز شریف حکومت کو قائم ہوئے 11ماہ ہونے کو ہیں ابھی تک کئی وزارتوں کے قلمدان وزیر اعظم کے پاس ہیں یا دیگر وزراء کو ان کا اضافی چارج دیا گیا ہے حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف)کے دو وزراء نے’’پسندیدہ‘‘ وزارتیں نہ ملنے پر احتجاجاً اپنے استعفے دے رکھے ہیں وزیر اعظم محمد نواز شریف اپنے وزراء سے بھی بہت کم ملتے ہیں 10،11وزراء اور اہم عہدیدار کے لئے وزیر اعطم ہائوس کے دروازے ہر وقت کھلے رہتے ہیں جب کہ دیگرکیلئے ’’اپوائنٹمنٹ ‘‘لینا ضروری ہے۔ وزرائے مملکت بے چاروں کو تو وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں مدعو ہی نہیں کیا جاتا ۔وفاقی کابینہ کے اجلاس بھی بہت کم ہوتے ہیں اور جو اجلاس ہوتے ہیں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے بریفنگ دینے کی روایت ختم کر دی ہے۔ حکومت وفاقی کابینہ کے فیصلوں کے بارے میں ’’ہینڈ آئوٹ ‘‘ جاری کرنے پر اکتفا کر رہی ہے۔ کئی ہفتوں سے’حج پالیسی2014ئ‘‘ وفاقی کابینہ کے ایجنڈے پر تھی لیکن اجلاس نہ ہونے کے باعث وزیر اعظم سے منظوری لے کر وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف خان کو حج پالیسی کا اعلان کرنا پڑا ۔ لہٰذا خدا خدا کر کے وفاقی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں ایران سے بجلی درآمد کرنے کی منظوری حاصل کی گئی ہے۔ اس دوران وفاقی حکومت جب پچھلے 5،6ماہ سے طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کی کوشش کر رہی ہے بالآخر اسے جزوی کامیابی تو ہو ئی ہے لیکن طالبان کی قیادت نے فوری طور پر تمام مطالبات منظور نہ ہونے پرجنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کرکے حکومت کے لئے ایک نئی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جو حکومت میں طالبان سے مذاکرات کے سب سے بڑے حامی ہیں کی کوششیں رائیگاں ہوتی نظر آرہی ہیں تاہم وہ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے ذریعے طالبان کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر بٹھانے کی کوشش میں ہیں۔ انہیں اپنی ان کوششوں میں کس حد تک کامیابی ہوتی ہے اس بات کا انحصارطالبان کے مطالبات کی منظوری پر منحصر ہے طالبان نے اپنے جن قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے اسے سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ اسی طرح فوج طالبان کے لئے ’’پیس زون‘‘ بنانے کے لئے تیار ہے اور وہ اس علاقے سے نہیں نکلنا چاہتی جو اس نے بڑی تگ و دو کے بعد طالبان سے خالی کرایا ہے۔
گذشتہ ہفتے سابق صدر آصف علی زرداری کی وزیر اعظم محمد نوازشریف سے ملاقات کے بعد پیپلز پارٹی کی جانب سے تاثر دیا گیا تھا کہ وہ سیینٹ میں قانون سازی میں تعاون کرے گی لیکن سردست صورت حال یہ ہے کہ جب حکومت نے سینیٹ میں ’’تحفظ پاکستان آرڈننس2014ء پیش کیا تو اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا اور اس بل کو سرد خانے میں ڈالنے کے لئے مجلس قائمہ برائے قانون و انصاف کو بھجوا دیا جہاں پہلے ہی قومی اسمبلی سے منظور کئے گئے بل التوا میں پڑے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان بظاہر نواز شریف آصف زرداری ملاقات کو غیر جمہوری قوتوں کے خلاف ’’اکٹھ‘‘ کا تاثر دے رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری ،جو اپنے دور حکومت میں جنرل(ر) پرویز مشرف کو محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کیس میں تو قرار واقعی سزا نہ دلوا سکے اب وہ موجودہ حکومت سے توقعات باندھ رہے ہیں۔دوسری طرف ان کی جماعت 12اکتوبر 1999ء کے اقدام سے کارروائی شروع کرنے کی بات کرکے ایک نیا پنڈورا باکس کھولنا چاہتی ہے۔ سیاست کے اس باب میں جنرل پرویز مشرف کا موقف ہے آصف علی زرداری ’’ وزیر اعظم محمد نواز شریف کو قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘ کا نعرہ لگا کر انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ شائدیہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ’’عقابوں‘‘ کی جانب سے پیپلز پارٹی سے ’’رومانس‘‘ بڑھانے پر ’’ تحفظات ‘‘ کا اظہار بھی کیا جارہا ہے ۔ اسی لئے آصف علی زرداری کی وزیر اعظم محمد نوازشریف سے ملاقات میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان شریک ہوئے اور نہ ہی دونوں آصف علی زرداری سے سیاسی امور پر بات چیت کرنے کے لئے تیار نہیں تھے ۔