جنرل مشرف کی بیرون ملک روانگی کا معاملہ فی الوقت کھٹائی میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے تاہم یہ امر پرطور نوشتہ دیوار ہے کہ دل کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا۔ کچھ ’’حلقے‘‘ معاملات کو ’’سلجھائو‘‘ کی طرف لے جانے کے متمنی ہیں جب کہ خود مشرف ’’کھلارا‘‘ ڈالنے کے خواہش مند ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکمرانوں کے ہاتھ اس طرف بھی حرکت کریں جہاں انہیں ’’تپش‘‘ کا احساس ہوا اور ایک مرتبہ پھر آگ اور پانی کا کھیل شروع ہو جائے جو وقفوں وقفوں سے جاری و ساری رہتا ہے۔ وقفے ہوتے ہیں مگر صرف پانی کے جب کہ آگ مسلسل لگی رہتی ہے۔
مشرف دور کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ بلاشبہ وہ دور ظلم و جبر اور سیاسی حماقتوں سے بھرپور تھا تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں آج تک لگائے گئے سارے مارشل لائوں اور تمام تر آمریتوں کا ملبہ صرف ان پر ڈالنا بھی قرین انصاف نہیں کہ نسبتاً کم ہی سہی لیکن پرطور کچھ ’’مناسب‘‘ اقدامات بھی ان سے ’’سرزد‘‘ ہو چکے ہیں مثلاً ان کے دور میں ملک کی مجموعی حالت اور مہنگائی کی صورت حال ایک خاص حد سے نیچے نہیں گئی۔ بدامنی اور عدم تحفظ کا احساس بھی مقابلتاً کم تھا۔ ذرائع ابلاغ اور خواتین کی سیاسی سرگرمیوں میں زیادہ متحرک پیدا کیا گیا ۔
تجارتی اور ثقافتی حوالے سے بھی ہلچل دکھائی دی۔ تاہم یہ ساری باتیں یقیناً اس امر کا جواز فراہم نہیں کرتیں کہ مشرف کو قانون اور آئین کی چھلنی سے نہ گزارا جائے۔ مسئلہ محض اس قدر ہے کہ قانون اور احتساب کا راستہ مختصر اور صاف ہونا چاہئیے کہ مذکورہ راستہ جس قدر طویل اور آلودہ ہو گا۔ وہ انصاف دینے اور لینے والوں، دونوں کو ’’نڈھال‘‘ کر دے گا۔ جب کہ اس مسئلے کا بہتر اور کئی ’’حلقوں‘‘ کی طرف سے تجویز کردہ حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آج تک آئین اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو مجموعی علامتی سزا دے کر بات کو ختم کر دیا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ علامتی سزا سے کیا آئندہ کے لئے یہ سلسلہ رک پائے گا؟ اس بات کی یقیناً کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا، تاہم سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر مشرف کو واقعتاً اور حقیقتاً سزا دے بھی جائے تو اس بات کی کیا ضمانت ہو گی کہ آئندہ کوئی طالع آزما کبھی مہم جوئی نہیں کرے گا؟ کہ زمینی حقیقت تو محض اس قدر ہے کہ بقول چودھری شجاعت حسین مارشل لاء کسی عدالتی حکم یا آرڈیننس کے ذریعے ہر گز نہیں روکا جا سکتا اور اس ’’کار مختصر‘‘ کے لئے تو محض ایک عدد فوجی جیپ اور ٹرک کی ضرورت پڑتی ہے جنہوں نے صرف چند سڑکیں ہی عبور کرنا ہوتی ہیں اب ملین ڈالر کا سول یہ ہے کہ پھر آخر کار مارشل لائوں کا راستہ کیسے روکا جائے! دیدہ و بینا ’’اساتذہ‘‘ کا ماننا ہے کہ زدو کوب کرنے سے کہیں بہتر عمل یہ ہے کہ شرمندگی اور ندامت کا احساس بیدار کیا جائے کہ اکثر اوقات محض احساس شرمندگی اور ندمات کی کیفیت ہی سے آئندہ کی کج رویوں اور ہونے والی غلطیوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے جب کہ بساً اوقات متشددانہ اور سخت گیر رویہ اشتعال انگیزی کا سبب بن جاتا ہے اور اشتعال ہی تمام تر خرابیوں کی ابتداء ہوتی ہے۔
گو کہ مشرف کیس کا قانونی پہلو خاصا گنجلک اور پیچیدہ تر لگتا ہے اور بظاہر ظاہری اور پوشیدہ قوتیں بھی اس معاملے میں ایک صفحے پر دکھائی نہیں دیتی تاہم جلد یا بدیر اس معاملے کو نمٹانا ہی پڑے گا چاہے اس کے لئے کچھ ’’قیدی بچوں‘‘ کو کڑوی گولی ہی کیوں نہ نگلنا پڑے کہ مسئلہ ’’حل‘‘ کرنے ہی میں سب کی عافیت ہے کہ اس وقت ایک طرف اگر آتش شوق بھڑک رہی ہے تو کہیں آس پاس ہی اضطرابی دھواں بھی آٹھ رہا ہے تو گویا وقت کی ضرورت صرف یہ ٹھہرتی ہے کہ الائو پر دھیرے دھیرے پانی ڈالا جائے تاکہ آتش شوق بھی ٹھنڈی پڑ جائے اور اضطراب کا دھواں بھی بیٹھتا ہوا محسوس ہو اور حسن اتفاق سے اس وقت پانی کا وقفہ ہی چل رہا ہے ایسا ہو جانا چاہئیے قبل اس کے کہ سیٹی بج جائے اور کھیل دوبارہ شروع ہو جائے۔