آپ کی نعلین ہوا میں اڑتے اجے پال جوگی کے سر پر برسنے لگیں

اجمیر شریف میں اجے پال جوگی جو سفلی علوم کا بہت بڑا ساحر تھا آپ کو متاثر کرنے کے لیے ہرن کی کھال پر بیٹھ کر ہوا میںاڑنے کا مظاہرہ کرتا رہا۔ حضرت نے اپنی نعلین مبارک کو حکم دیا کہ اجے پال کو نیچے اتار لائو، چنانچہ نعلین ہوا میں بلند ہوئیں اور اس کے سر پر برستی ہوئی اس تکبرونخوت کے پتلے کی تواضع کرتی ہوئیں اسے زمین پر اتار لائیں۔ اجے پال جوگی خاک پر گرا اور پھر آپ کے قدموں میں گر کر معافی کا خوستگار اور مشرف بہ اسلام ہوا، آپ نے اس کا اسلامی نام عبداللہ رکھا۔ اسی اجے پال نے اناساگر سے وضو کے لیے پانی نہیں لینے دیا تھا جس کے بعد سلطان الہند کی کرامت سے جھیل کا سارا پانی ایک پیالے میں آ گیا تھا، اور شہر کے تمام تالاب، کنوئیں، حوض خشک ہونے لگے جبکہ چار پایوں اور خواتین کا دودھ بھی خشک ہونا شروع ہو گیا تھا۔
… …… …………
سادھو رام دیو کا قدموں
میں گر کر اسلام قبول کرنا
اجمیر شریف میں راجہ کا مندر اناساگر اور بلبلہ تالاب کے درمیان تھا، جس کا منتظم سادھو رام دیو تھا، مسلمانوں کو یہاں نماز پڑھتے اور وضو کرتے دیکھ کر تنگ نظر ہندو سیخ پا ہوئے اور کچھ نے مل کر آپ پر حملہ کر دیا آپ نے زمین سے مٹھی میں ریت اٹھا کر آیت الکرسی دم کرکے شرپسندوں کی جانب پھینکی ریت کے ذرات جس کے جسم پر لگے اس کا جسم فوراً سوکھ کر بے کار ہو گیا، سادھو رام دیو بھی اپنے جادوگروں کے ہمراہ آپ کے نزدیک پہنچا تو آپ کی بزرگی کے جلال کی تاب نہ لا سکا اور نہایت عاجزی اور لاچاری سے آپ کے قدموں پر گر کر معافی کا خواستگار ہوا اور آپ کے دست حق پر مسلمان ہوا اس کا اسلامی نام شادی دیو رکھا گیا۔ اورآپ نے اسے تبلیغ کیلئے دیگر علاقوں میں بھیجا۔ شہزادی جہاں آراء کے مطابق وہ ایک جن تھا جسکی اجمیر کا راجہ اور رعایا پرستش کرتے تھے۔ ان کے خیال میں دنیا کی ساری دولت رام دیو کے پاس تھی۔ اسکے اسلام قبول کرنے پردولت مند ہندوئوں نے بڑی تعداد میں اسلام قبول کیا۔
… …… …………
پرتھوی راج کو جواب
ہم تو جاتے ہیں
تمہیں نکالنے والا آنے والاہے
اجمیر کے حاکم پرتھوی راج نے قاصد کے ذریعے آپ کو اور ساتھیوںکو اناساگر جھیل سے مچھلیاں پکڑ کر کھانے سے منع کی، بعدازاں پیغام بھیجا کل تک اجمیر چھوڑ کر چلیں جائیں، پیغام سن کر آپ نے فرمایا کہ ہم تو جاتے ہیں مگر تمہیں نکالنے والا آنے والا ہے۔
… …… …………
تھانسیر کے میدان میں شہاب الدین غوری کا پرتھوی راج کو شکست دینا
سلطان شہاب الدین غوری ترائین کی شکست کھانے کے بعد غزنی چلا گیا وہ شکست کے بعد بستر پر نہیں سویا اور ہمیشہ شکست کا بدلہ لینے کا سوچتا، ایک روز خواب میں آپ کو ایک نورانی چہرہ بزرگ کی زیارت ہوئی جنہوں نے اسے یہ بشارت اور خوش خبری سنائی کہ اللہ تعالی نے ہندوستان کی حکومت تجھے بخش دی وہ 1193ء میں ایک لاکھ سات ہزار کی فوج کے ساتھ تھانسیر کے میدان میں دریائے سرسوتی کے پار میدان جنگ میں پہنچ گیا۔ پرتھوی راج رائے پتھورا تین لاکھ سوار فوجیوں، تین ہزار جنگی ہاتھیوں اور سولہ ہزار سازوسامان کی گاڑیوں کے ساتھ مقابل آیا۔ ڈیڑھ سو راجوں مہاراجوں کی افواج اس کے ہمراہ تھی۔ شہاب الدین غوری کے حوصلے بلند تھے اور اسے خواب میں خواجہ پیر کی مدد کی بشارت بھی یاد تھی۔ شہاب الدین کے ماہر تیر اندازوں نے تین ہزار جنگی ہاتھیوں کی سونڈوں کو نشانے پر لیا جنہوں نے اپنی ہی فوج کو پلٹتے ہوئے روند ڈالا، پرتھوی راج، اس کی فوج اور راجوں مہاراجوں تلسی کے پتے کھا کر کٹ مرنے کی سوگند سب تھانسیر کے میدان میں کھیت رہیں۔ پرتھوی راج کے قتل اور گرفتار ہو کر غزنی پہنچنے کی روایات ہیں۔
… …… …………
شہاب الدین غوری حضرت
خواجہ غریب نواز کے قدموں میں
اجمیر کی فتح کے بعد شام ڈھلے شہاب الدین غوری شہر میں داخل ہوا تو اذان کی آواز سن کر تعجب ہوا، وہ نماز کی ادائیگی کے لیے وہاں پہنچا تو تکبیر کے ساتھ نماز کھڑی ہو رہی تھی، وہ بھی صف میں کھڑا ہو گیا، سلام پھیرا تو امامت کرانے والے بزرگ پر نظر پڑی تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس کے سامنے خواب میں فتح کی بشارت دینے والی برگزیدہ ہستی تشریف فرما تھی، وہ وفور شوق اور ادب اور پرنم آنکھوں کے ساتھ آپ کے قدموں میں گر کر دعائوں کا طالب ہوا۔ آپ نے اسے سینے سے لگایا اور دعائوں سے نوازا۔
… …… …………
خدام مصلّے کے کونے سے لنگر کیلئے رقم اٹھا لیتے
آپ کا لنگر خانہ اجمیر کے مساکین اور غرباء کیلئے ہمیشہ جاری و ساری رہتا اور آپکی حیات مبارک میں بھی وہاں اژدھام لگا رہتا۔ لنگر خانے کیلئے کسی سے سوال زبان پر نہ لاتے۔ جب خدام کو لنگر کیلئے رقم درکار ہوتی وہ آپ کے پاس تشریف لاتے اور آپ مصلّے کا کونہ اٹھا کر فرماتے جس قدر رقم درکار ہے اٹھا لو سو خدام اتنی رقم اٹھا لیتے اور یہ سلسلہ برسہا برس جاری رہا۔
… …… …………
پاپوش پاک سے آگ سرد ہو گئی
ایک شب آپ جنگل سے گزر رہے تھے، آپ نے دیکھا سات آدمیوں نے الائو روشن کر رکھا ہے اور اس کی پوجا کر رہے ہیں۔ ان آگ کے پجاریوں کی دھاک علاقے پر پھیلی ہوئی تھی۔ وہ چھ چھ ماہ تک کچھ کھائے پیے بغیررہتے اور لوگوں کو انکا حال بتاتے۔ آپ نے ان سے آگ کی پوجا کے بارے میں دریافت فرمایا تو بولے کہ روزِ قیامت کے ڈر سے اس آگ کی پوجا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ آگ اللہ تعالیٰ کی تابع ہے اگر اللہ کی عبادت کرو گے تو کوئی بھی آگ تمہیں نہ جلائے گی۔ پجاریوں نے آپکی بات پر یقین نہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ آگ مجھے تو کیا میری پاپوش کو بھی گزند نہیں پہنچا سکتی۔ یہ کہہ کر آپ نے پائوں سے نعلین اتار کر الائو میں پھینکی جس سے آگ بجھ گئی اور جوتی ویسے ہی سلامت رہی۔ یہ کرامت دیکھ کر وہ ساتوں آتش پرست مسلمان ہو گئے۔
… …… …………
نوعمر ترک غلام کو بادشاہت
کی پیش گوئی پوری ہوئی
دلی میں آپ درویشوں کی مجلس میں تشریف فرما تھے اور حضرت شیخ شہاب الدین، حضرت شیخ احد الدین کرمانی بھی وہاں موجود تھے کہ اسی اثنا میں ایک نوعمر سرخ وسپید ترک غلام ہاتھ میں تیر کمان لئے وہاں سے گزرا، اسے دیکھتے ہی آپ نے برجستہ فرمایا کہ یہ لڑکا تخت دہلی پر متمکن ہونے سے قبل فوت نہیں ہو گا آپ کی یہ روحانی پیشن گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور یہ نوعمر ترک غلام رضیہ سلطان کا والد سلطان شمس الدین التمش تھا جو تخت دہلی پر متمکن ہوا، وہ حضرت کا مرید اور ازحد عقیدت مند تھا اور اس کے لیے آپ کا ادنیٰ فرمان بھی حکم کا درجہ رکھتا۔
… …… …………
حضرت عثمان ہارونی کے مرید سے ان کے سبب عذاب الہیٰ ہٹا لیا گیا
’’سیر الاولیا‘‘ میں مرقوم ہے کہ حضرت خواجہ غریب نواز نے فرمایا کہ میرا ایک ہمسایہ جو میرے مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی کا مرید تھا وہ فوت ہوا تو میں اس کے جنازے پر گیا، سپرد خاک کرنے کے بعد لوگ چلے گئے میں نے مراقبہ کیا تو دیکھا کہ عذاب کے فرشتے پہنچ چکے ہیں لیکن اسی دوران مرشد حضرت عثمان ہارونی درمیان میں آ گئے اور فرمایا ہرگز عذاب نہ کرو یہ میرا مرید ہے، فرشتوں کا فرمانا ہوا کہ اسے کہہ دو کہ یہ شخص آپ کے خلاف تھا آپ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ میرے خلاف تھا لیکن پھر بھی اس نے میرا دامن پکڑا تھا، بعدازاں فرشتوں کو حکم ہوا کہ اس پر عذاب نہ کرو کیونکہ یہ خواجہ عثمان کا مرید ہے میں نے اس شخص کو ان کی بدولت بخش دیا۔
… …… …………
روضہ مبارک سے تلاوت کی اصلاح
حضرت بابا فرید الدین گنج شکر فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ کچھ عرصہ تک خواجہ معین الدین سنجری قدس سرہ کے روضہ میں معتکف رہا۔ عرفہ کی ایک رات روضہ متبرکہ کے نزدیک نماز ادا کی اور وہیں کلام اللہ پڑھنے میں مشغول ہو گیا۔ تھوڑی رات گزری تھی کہ میں نے پندرہ سپارے ختم کر لئے، سورۃ کہف یا سورۃ مریم میں ایک حرف مجھ سے ترک ہو گیا۔ حضرت مخدوم کے روضہ سے آواز ٓئی کہ یہ حرف چھوڑ گئے اسے پڑھو۔ دوبارہ آواز آئی عمدہ پڑھتا ہے۔ خلف الرشید ایسا ہی کیا کرتے تھے، جب میں قرآن پڑھ چکا تو حضرت خواجہ کے پائینتی پر سر رکھ دیا اور رو کر مناجات کی کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں کس گروہ میں سے ہوں۔ یہی فکر تھی کہ روضہ اطہر میں سے آواز آئی کہ مولانا! جو شخص یہ نماز ادا کرتا ہے وہ بخشے ہوئوں میں سے ہے۔
پھر حضرت خواجہ کے قدموں کی طرف سر رکھ دیا تو معلوم ہوا کہ ٹھیک میں اس گروہ میں سے ہوں جیسا کہ فرمایا تھا۔ کچھ دیر کے بعد وہاں سے بہت سی نعمتیں حاصل کر کے چلا آیا۔
… …… …………
خواجہ قطب الدین کی بسم اللہ خوانی
1177ء میں آپ اوش تشریف لائے جس کا شہرہ تمام شہر میں ہوا، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی والدہ ماجدہ نے قطب صاحب کو حضرت خواجہ غریب نواز کی خدمت میں بسم اللہ خوانی کیلئے بھیجا، قطب صاحب کی عمر عزیز اس وقت چار سال، چار ماہ اور چار یوم تھی، خواجہ صاحب نے قطب صاحب کی تختی لکھنا چاہی تو غیب سے آواز آئی… ’’اے خواجہ! ابھی لکھنے میں توقف کرو، حمید الدین ناگوری آتا ہے وہ ہمارے قطب کی تختی لکھے گا‘‘۔
… …… …………
حضرت جہانیاں گشت کے سلام کے جواب میں لحد سے دستِ مبارک برآمد ہوا
حضرت جہانیاں جہاں گشت (حضرت جلال الدین حسین) اپنے سفر نامہ میں حضرت سلطان الہند کی بارگاہ میں پہنچنے کا احوال لکھتے ہیں کہ فقیر جب آپ کے مزار پر حاضر ہوا تو عرض کی اسلام و علیکم یا خواجہ خواجگان سید الاولیائ، مجھے دست بوسی کا شرف بخشیے۔ چنانچہ تربتِ انوار سے آپ کا دست مبارک برآمد ہوا اور وعلیکم اسلام کی آواز بھی سنائی دی۔ یہ منظر دیکھ کر خدام حیران اور اجمیر شریف کے لوگ حضرت جہانیاں شاہ گشت کے گرویدہ ہو گئے۔
…………………
انیس الارواح
"انیس الارواح"آپکے ملفوظات کی برگذیدہ تصنیف ہے۔ یہ آپکے پیرومرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی کی زبان فیض سے جاری ہونے والے کلمات ہیں جو آپ درج کرایا کرتے۔"انیس الارواح" تصوف و طریقت کو سادہ اور عمدہ اسلوب میں سمجھنے کا عام فہم طریقہ ہے۔
… …… …………
بڑی دیگ، چھوٹی دیگ
مغلِ اعظم جلال الدین اکبر نے آپ کی چوکھٹ پر نذر مانی تھی کہ چتوڑ گڑھ کا مشکل ترین قلعہ فتح ہوا تو یہاں دیگ نذرکروںگا۔ فتح کے بعد اس نے بڑی دیگ نذر کی جس میں بیک وقت سوا سو من چاول بآسانی پکتے ہیں۔ یہ دیگ تیرہ گز بلند اور ساڑھے بارہ گز چوڑی ہے جبکہ بلند دروازے کے مشرق میں شہنشاہ نور الدین جہانگیر نے چھوٹی دیگ نصب کرائی اس میں ساٹھ من چاول پکتے ہیں۔
… …… …………
باوضو سونے کی فضیلت
حضرت خواجہ غریب نواز فرماتے ہیں کہ جو بندہ رات کو طہارت سے سوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ جب تک وہ بیدار نہ ہو اسکے قریب رہو۔ فرشتے اس کی روح زیرِ عرش لے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے کہ اسکو خلعت نور پہنچائی جائے اور جو شخص بغیر طہارت کے سوتا ہے اسکی روح کو آسمانِ اول سے گرا دیا جائے۔


’’شہاب الدین غوری خواجہ غریب نواز کے قدموں میں‘‘
یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس وقت شہاب الدین غوری اجمیر میں داخل ہوا تو شام ہو چکی تھی۔ مغرب کا وقت تھا۔ اتنے میں اس نے اذان کی آواز سنی۔ اذان کی آواز سن کر اس کو سخت تعجب ہوا۔ اس نے معلوم کیا کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے اس کو بتایا گیا کہ ایک فقیر کچھ دنوں سے آئے ہوئے ہیں یہ آواز وہاں سے آ رہی ہے۔ شہاب الدین نے اُدھر کا راستہ لیا۔ جماعت کھڑی ہو چکی تھی خواجہ غریب نواز امامت فرما رہے تھے۔ شہاب الدین غوری جماعت میں شریک ہو گیا۔ نماز ختم ہوئی۔ یکایک شہاب الدین غوری کی نگاہ خواجہ غریب نواز کے چہرہ پر پڑی۔ یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ یہ وہی بزرگ ہیں جنہوں نے اس کو خواب میں فتح و کامرانی کی بشارت دی تھی۔
شہاب الدین آگے بڑھا، اور خواجہ غریب نواز کے قدموں میں گر پڑا بہت دیر تک روتا رہا جب رونے سے فارغ ہوا خواجہ غریب نواز کی خدمت بابرکت میں باادب بیٹھا اور خواجہ غریب نواز سے درخواست کی کہ وہ اس کو مریدی کا شرف بخشیں۔ خواجہ غریب نواز نے ازراہ عنایت و شفقت اس کی درخواست منظور فرمائی اور اس کو مریدی کے شرف سے نوازا۔
…………
ہم نے پتھورا کو زندہ گرفتار کر کے لشکر اسلام کے حوالے کیا
جب سے خواجہ غریب نوازؒ اجمیرمیں رونق افروز ہوئے تھے، پرتھوی راج کے دربار میں آپ کے متعلق بہت سی چہ میگوئیاں ہوتی رہتی تھیں۔ پرتھوی راج اور اس کے درباریوں اور مقربین کو خواجہ غریب نواز اجمیر میں قیام سخت ناگوار تھا۔ وہ سب چاہتے تھے کہ آپ اجمیر سے تشریف لے جائیں۔
خواجہ غریب نواز کو پرتھوی راج سے اذیت پہنچی تھی آپ اس سے ناراض ہو گئے تھے۔ خواجہ غریب نواز اور راجہ پرتھوی راج کے درمیان کشمکش برابر جاری تھی۔ ایک مرتبہ پتھورا کا ایک مسلمان ملازم خلوص دل سے شیح معین الدین سنجری قدس سرہ کی خدمت میں مرید ہونے کی غرض سے حاضر ہوا لیکن شیخ نے اسے مرید نہ کیا۔ اس نے پتھورا سے جا کر کہا۔ پتھورا نے آپ سے دریافت کرایا کہ آپ اسے مرید کیوں نہیں کرتے۔
خواجہ غریب نواز نے مرید نہ کرنے کی تین وجوہات کہلا بھیجیں:
’’اول: یہ کہ وہ شخص بہت زیادہ گنہگار، دوم یہ کہ وہ شخص جو دوسروں کے سامنے اپنا سر جھکائے وہ ہمارا مرید ہونے کے ہرگز قابل نہیں، سوم یہ کہ لوح محفوظ میں اس شخص کے لئے ایسا لکھا دیکھا ہے کہ وہ دنیا سے بے ایمان جائے گا۔‘‘
دوسری کشمکش کی وجہ یہ ہوئی کہ خواجہ غریب نواز کا مرید پرتھوی راج کے یہاں ملازم تھا۔ راجہ نے آپ کو نقصان پہنچانا شروع کیا۔ اس شخص نے خواجہ غریب نواز کی خدمت میں عرض کیا۔ خواجہ غریب نواز کی مرید نوازی مشہور ہے۔ آپ نے راجہ سے اس کی سفارش کی۔ راجہ پرتھوی راج نے خواجہ غریب نواز کی سفارش نہ مانی اور کہنے لگا:
’’یہ شخص یہاں آ کر غیب کی باتیں بیان کرتا ہے۔‘‘
یہ بات خواجہ غریب نواز کے کان تک پہنچی۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا:
’’ہم نے پتھورا کو زندہ گرفتار کر کے لشکر اسلام کے حوالے کردیا۔‘‘
ایک تیسرا واقعہ حضرت بابا فرید گنج شکر اس طرح بیان فرماتے ہیں:
’’ایک مرتبہ میں شیخ معین الدین کی خدمت میں بیٹھا تھا۔ ان دنوں پتھورا (پرتھوی راج) زندہ تھا اور کہا کرتا تھا کہ کیا اچھا ہو جو یہ فقیر (غریب نواز) یہاں سے چلے جائیں۔ یہ بات ہر شخص سے کہا کرتا تھا۔ شدہ شدہ یہ خبر شیخ معین الدین نے بھی سن لی اور درویش بھی اس وقت موجود تھے۔ آپ (غریب نواز) اس وقت حالت سکر میں تھے۔ فوراً آپ نے مراقبہ کیا اور مراقبہ ہی میں آپ کی زبان سے یہ کلمات ادا ہوئے۔
’’ہم نے پتھورا کو زندہ ہی مسلمانوں کے حوالے کر دیا‘‘ خواجہ غریب نواز کا اقتدار کم کرنے کی یہ تدبیر سوچی کہ ہشر میں اعلان کرایا کہ کوئی شخص غریب نواز کے پاس نہ جائے اور اگر کوئی جائے گا تو اس کو قتل کردیا جائے گا اور اس کا گھر بار لٹوا دیا جائے گا۔
ایک دن کا واقعہ ہے کہ راجہ پرتھوی راج نے سخت غصہ میں ایک راجپوت سردار کو ان سرداروں کی گرفتاری کے لئے بھیجا جو غریب نواز کی خدمت میں حاضر تھے۔ آخر کار راجہ پرتھوی راج نے ایک روز خواجہ غریب نواز سے کہلا بھیجا کہ وہ کل (یعنی محرم 588 ھ) تک اجمیر سے چلے جائیں۔ خواجہ غریب نواز نے جواب میں راجہ پرتھوی سے کہلا بھیجا۔
’’ہم تو جاتے ہیں مگر تم کو نکالنے والا شہاب الدین غوری بھی عنقریب آتا ہے۔‘‘
………
نجومیوں کی پیشنگوئی اور پرتھوی راج کی ماں کی پریشانی
راجہ پرتھوی راج کی ماں نے خواجہ غریب نواز کی آمد سے بارہ سال قبل اپنے بیٹے کو نجومیوں کی پیشن گوئی سے مطلع کر دیا تھا کہ ایسی شکل و صورت اور حلیہ کا آدمی اس کے ملک میں آئے گا اور اس کی سلطنت برباد کر دے گا۔ اس پیشنگوئی سے راجہ پرتھوی راج متفکر رہنے لگا تھا۔ اس نے اس شخص کی تلاش کے لئے جابجا اپنے آدمی مقرر کر دیئے تھے۔ جب خواجہ غریب نواز سمانا میں رونق افروز ہوئے تو راجہ کے آدمیوں نے آپ کو اس حلیہ اور شکل و صورت کا پا کر آپ کو ٹھہرانا چاہا۔ خواجہ غریب نوازؒ نے مراقبہ کیا۔ آپ کو دربار رسالتؐ سے بشارت ہوئی کہ ٹھہرنا مناسب نہیں۔ وہ لوگ دغا و فریب کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی نیت بد ہے۔ خواجہ غریب نواز نے اپنے ساتھیوں کو دربار رسالت کی بشارت سے مطلع فرمایا اور آپ مع ساتھیوں کے اجمیر کے لئے روانہ ہو گئے۔ خواجہ غریب نوازؒ اجمیر پہلی بار 586 ھ، بمطابق 1190ء میں جلوہ افروز ہوئے۔
…………
جس رات خواجہ غریب نواز کا وصال ہوا، چند اولیاء اللہ نے حضرت محمدؐ کو خواب میں دیکھا کے حضورؐ فرماتے ہیں:
’’معین الدین حق تعالیٰ کا دوست ہے۔ ہم آج اس کے استقبال کے لئے آئے ہیں۔‘‘
6 رجب 627ھ، بمطابق 21 مئی 1229ء دو شنبہ کے دن عشا کی نماز کے بعد خواجہ غریب نواز نے اپنے حجرہ کا دروازہ بند کیا۔ کسی کو بھی حجرہ کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہ تھی۔ حجرہ کے باہر خدام حاضر تھے۔ رات بھر ان کے کانوں میں صدائے وجد آتی رہی۔ رات کے آخری حصہ میں وہ آواز بند ہو گئی۔ صبح کی نماز کا وقت ہوا لیکن دروازہ نہ کھلا۔ خدام کو تشویش ہوئی آخر کار دروازہ توڑا گیا۔ لوگ اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ خواجہ غریب نواز رحمت حق میں پیوست ہو چکے ہیں۔ آپ کی جبین مبارک پر بحظ قدرت یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے۔
ھذا حبیب اللہ مات فی حب اللہ۔
’’وہ خدا کا حبیب تھا اور خدا کی محبت میں انتقال کیا۔‘‘
…………
اچھا اونٹ بیٹھتے ہیں تو بیٹھیں‘‘
آپ نے انا ساگر کے کنارے جہاں آپ کا چلہ واقع ہے قیام فرمایا:
اونٹ حسب معمول اپنی جگہ پر آئے اور بیٹھے لیکن اب وہ ایسے بیٹھے کہ اٹھانے سے بھی نہ اٹھے۔ سار بانوں سخت متحیر اور پریشان ہوئے۔ ساربانوں کے داروغہ نے اس پورے واقعہ کی اطلاع راجہ پرتھوی راج کو کرائی۔ راجہ پرتھوی راج کو خود حیرت تھی اس نے ساربوں کو حکم دیا کہ وہ ان فقیر (یعنی خواجہ غریب نواز) سے معافی مانگیں۔ ساربان خواجہ غریب نواز کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور معافی کی خواستگار ہوئے۔ خواجہ غریب نواز نے ازراہ شفقت ساربانوں کو معاف کیا۔
’’اچھا جاؤ اُونٹ کھڑے ہو گئے۔‘‘
ساربان خوشی خوشی واپس آئے۔ ان کی خوشی اور تعجب کی کوئی انتہا نہ تھی جب انہوں نے دیکھا کہ اونٹ کھڑے تھے۔
…………
غوری کو خواب میں سلطنت کی بشارت
شہاب الدین غوری نے خراسان میں خواجہ غریب نواز کو خواب میں دیکھا کہ خواجہ غریب نواز اس کو تسلی دے رہے ہیں اور اس سے فرما رہے ہیں:
’’خدائے تعالیٰ نے ہندوستان کی سلطانی تجھے بخشی، جلد اس طرف توجہ کرو اور راجہ پرتھوی راج کو زندہ گرفتار کر کے سزا دو۔‘‘
شہاب الدین غوری نے اپنا یہ خواب علماء و فضلاء سے بیان کیا۔ سب نے ایک زبان ہو کر اس خواب کی تعریف کی اور کہا کہ یہ خواب فتح و کامرانی کا مژدہ ہے۔
خواجہ غریب نواز نے راجہ پرتھوی راج سے کہلا بھیجا تھا کہ ہم تو جاتے ہیں … چنانچہ آپ نے اجمیر سے کوچ فرمایا۔

ای پیپر دی نیشن