اسلام آباد (وقائع نگار) آئی جی اسلام آباد طاہر عالم کے غیر مشروط معافی مانگنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدلیہ سے متعلق توہین آمیز ریمارکس کا معاملہ نمٹا دیا۔ بدھ کو منشیات کیس میں ضمانت کے مقدمہ کے دوران آئی جی کا ایک خط عدالت میں پیش کیا گیا تھا جس میں عدلیہ کے حوالے سے توہین آمیز ریمارکس درج تھے۔ دوران سماعت آئی جی طاہر عالم نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے موقف اپنایا کہ لیٹر میں توہین آمیز جملہ ’’تفتیشی افسروں کی خراب کارکردگی پر عدلیہ کی جانب سے سخت ریمارکس سے آئی جی سمیت پولیس کے سینئر افسروں کو ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘‘ جونیئر افسر کی غلطی کی وجہ سے شامل ہوا جس پر انہوں نے عجلت میں دستخط کر دئیے۔ میرا مقصد ہر گز کسی ادارے کی توہین کرنا نہیں ہے۔ اس پر جسٹس نور الحق این قریشی نے کہا کہ لگتا ہے آپ نے جان بوجھ پر ایسے ریمارکس دئیے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ میڈیا اطلاعات کے مطابق آپ نے تو ایک بوتل شراب رکھنے کی اجازت بھی دی تھی، یہ کیا معاملہ ہے۔ طاہر عالم نے وضاحت کی کہ میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ بڑے شراب فروشوں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے مگر ماتحت افسروں نے اس کا غلط مطلب لیا ا ور اس حوالے سے خود ہی ہدایات جاری کر دیں۔ اس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دئیے کہ لینڈ کروزر میں کوئی شراب کا کریٹ لے جائے اسے کوئی نہیں پکڑتا اور ویگنوں سے لوگوں کو اتار کر ایک ایک بوتل برآمد کی جاتی ہے۔