تلازمہ خیال۔۔۔ خدشات اور توقعات

کمیونزم طرز حکومت والا ملک روس جب عالمی صنعتی و فوجی طاقت بنا تو مغربی دنیا میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ یہ ممالک کمیونزم کو جمہوریت کے منافی سمجھتے ہیں ۔آج کل یہی پریشانی مغربی افکار کے لوگوں کو چین سے لاحق ہے کیونکہ چین بھی کمیونسٹ ملک ہے اور ایک عالمی طاقت بن چکا ہے ۔ اسکے علاوہ جرمنی بھی بین الاقوامی طاقت کے طور پر ایک فاشسٹ ڈکٹیٹر کی حکمرانی میں ابھرا ۔تاریخ کے مزید اوراق الٹائیں تو ترکی کی مثال ملتی ہے، جہاں ایک فوجی حکمران نے ملک کی باگ ڈور اس طرح سنبھالی اور ملک کو معاشی دوڑ میں نمایاں پوزیشن دلادی جو اب تک کی مسلم دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک کے طور پر مانا جاتا ہے۔
بات کریں ارض پاک کی تو موجودہ آرمی چیف راحیل شریف نے جب فوج کی کمان سنبھالی اس وقت ملک معاشی ابتری اور دہشت گردی میں ڈوب اور جل رہا تھا۔ پہلے ضربِ عضب آپریشن شروع کیا اور دہشت گردی میں اتنی کمی لائے کہ بین الاقوامی لیڈر اور ادارے اقرار اور اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے۔ دہشت گردی میں کامیابی کے اعتراف کی ایک وجہ کراچی کے حالات میں ایک معجزانہ بہتری لانا بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ کراچی کی صورت حال اتنی خراب تھی کہ آرمی کالجز میں ایک Case Study کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔مسلح دہشتگردی سے برسرِ پیکار سالار نے انکشاف نما اظہار کیا کہ دہشت گردی کا خاتمہ کرپشن ختم کئے بغیر ممکن نہیں تو سیاسی پارٹیوں میں زلزلہ کی طرح خدشات نے جنم لیا کہ کرپشن کے خاتمہ کے اور سیاسی قیادت کے احتساب کے نام پر شائد پھر جمہوریت یاکچھ سیاستدانوں کو خدشہ لاحق ہو گیا ہے مگر راحیل شریف نے آرمی کے اعلیٰ ترین افسروں کو برطرف کر کے سیاسی حکمرانوں اور سیاسی خانوادوںکو کارنر کر دیا ہے۔ تازہ ترین ملکی صورت حال نے سیاستدانوں کے خدشات مگر عوام کی خواہشات اور توقعات میں اضافہ کردیا ہے کیونکہ صرف آرمی کا ’’ڈنڈا نما ایجنڈا‘‘ یہ سب کچھ کر رہا ہے جبکہ سیاسی اشرافیہ نہ صرف اس میں کوئی حصہ نہیں ڈال رہی بلکہ ابھی تک بڑے سیاسی حکمرانوں کی کرپشن پر ہاتھ پڑتا دیکھ کر ایک بار پھر جمہوریت کی آڑ جو کہ اب بوسیدہ باڑ سے بھی کمزور ہو چکی ہے، کی اوٹ میں پناہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔گویا صرف ایک ادارے کی کوششوں سے نمایاں ترین بہتری آ رہی ہے، اس کے لئے Military Activism Progressive کی اصطلاح ایجاد ہو چکی ہے کیونکہ ’’چھوٹو گینگ‘‘ تک کو آرمی نے جا کر قابو کیاہے۔ ایک فلم کا ڈائیلاگ ہے کہ دنیا میں کام کرنے کے 3 طریقے ہوتے ہیں Right Ways ،Wrong Ways اورArmy Ways ۔ اس وقت پاکستان میں ’’آرمی ویز‘‘ کے تحت رونما ہونیوالی بہتری Army Activism کی اصطلاح کو اصلاح ماننے پرلوگ مجبور ہیں۔چھوٹو کو بڑابنانے والے بڑے بھی اب بُرے حالات سے دوچار ہوتے نظر آرہے ہیں۔اس چھوٹو کے بڑے اور برے ا نکشافات تخت الٹا سکتے اورکئی کا دھڑن تختہ کرسکتے ہیںاور چھوٹو فوج کے پاس ہے۔
ملک کی معیشت تقریباً 70 ارب ڈالر کی مقروض ہے جس کی وجہ سے سالانہ بجٹ کا 40% صرف قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتا ہے جی ہاں !پاکستان سالانہ سو میں سے چالیس روپے ان قرضو ں کی ادائیگی پر خرچ کرتا ہے جو 2008ء کے بعد جمہوریت کی بحالی سے لیکر تا حال جمہوریت کے حسن اور خراج پر خرچ بلکہ غرق ہوئے ہیں، جس سے بھوک، ننگ اور افلاس زدہ عوام کا دل جمہوریت سے نہ صرف کھٹا ہو چکا ہے بلکہ شائد بھر جائے گا، اسی لئے سیاسی اشرافیہ کیلئے ایک تجویز یہ ہے، وہ کم از کم کرپشن کا اتنامال اپنے ذرائع سے ضرور ریکور کر لیں کہ یہ قرضہ اتر جائے۔مگر سیاسی کارکردگی کا ذکر کیا جائے تو جو جمہوری حکومتیں 8سال گزرنے کے باوجود تاحال اپنے عوام کی تعداد کی گنتی(مردم شماری) نہیں کر سکیں وہ ان کی بہتری کیلئے منصوبہ بندی کیا کریں گے ۔ اگلا سیاسی پہلو بہت گھمبیر ہے :اپوزیشن پارٹیاں پانامہ ہنگامہ کی وجہ سے با آسانی حکومت کو چلتا کر سکتی تھیں مگر جب اپنے گریباں میں جھانکتیں ہیں تو ان کی نظریں کرپشن کے مال سے بھری اپنی جیبوں تک جاپہنچتی ہیں، اس لئے وہ حکومت مخالف مظاہرے تو درکنار بیان تک دینے سے گریزاں ہیں، سوائے تحریک انصاف کے۔کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ جب بھی سیاستدانوں کا ذکر ہو تو جھوٹ اور کرپشن لازم وملزوم کی طرح تلازمہ خیال(Associated Memory) بن کر سامنے سامنے آجاتاہے۔
پاکستان کی تاریخ میں سیاسی حکمران اپنی معاشی نا اہلی، جمہوری تسلسل ٹوٹنے کا خوشنما اور خوفناک جواز پیش کر کے جان بچاتے تھے مگر موجودہ آرمی قیادت نے یہ ثابت کر دیا ہے ، اگر نیت نیک اور مکمل ہو تو 3 سال بھی کافی ہیں۔تین سال کا اشارہ کس چیز کا تلازمہ خیال ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے۔
پاکستان میں چونکہ بیرونی طاقتوں کا ہاتھ بہت مضبوط اور بسا اوقات منفی ہوتا ہے اور اگر کوئی بھی لیڈر ان کے طے کردہ ایجنڈے سے زیادہ کارکردگی دکھائے تو اسے رستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ اس لئے بشرط زندگی رواں سال کے اختتام سے پہلے جنگ و جدل، آگ اور خون، خوف وہراس، خدشات و خواہشات کی کوکھ سے بہتر پاکستان جنم لیتا نظر آ رہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن