اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + آن لائن + نوائے وقت نیوز+ بی بی سی) چیف جسٹس انور ظہیر جمالی 7 روزہ دورے پر ترکی چلے گئے‘ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس ثاقب نثار نے قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان سے حلف لیا۔ تفصیلات کے مطابق ہفتہ کے روز سپریم کورٹ میں حلف برداری کی تقریب منعقد ہوئی جس میں سپریم کورٹ کے ججز صاحبان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل، وکلاء اور بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے شرکت کی۔ سپریم کورٹ کے جج آصف سعید کھوسہ نے ان سے حلف لیا۔ حلف اٹھانے کے بعد جسٹس ثاقب نثار نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے کہا پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے کمشن کا حتمی فیصلہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی وطن واپسی پر خود کریں گے۔ میں کمشن بنانے کا مجاز نہیں ہوں۔ ذرائع کے مطابق چیف جسٹس کے دورہ ترکی کے باعث پانامہ لیکس پر کمشن کا معاملہ ایک بار پھر التوا کا شکار ہو گیا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کی جانب سے ایک جاری بیان میں انہوں نے کہا چیف جسٹس انور ظہیر جمالی ایک ہفتے کے لئے ترکی کے دورے پر ہیں اور وطن واپسی کے بعد حکومتی خط کا جائزہ لیں گے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا میں بطور قائم مقام صرف روزمرہ کے امور کی ہی حد تک ہی کام کروں گا، کیونکہ بطور قائم مقام میرے پاس محدود اختیارات ہیں، میں انکوائری کمشن کے قیام کا نہ مجاز ہوں اور نہ ہی استحقاق ہے۔ اس موقع پر جسٹس دوست محمد خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر الزام عائد کرنے والا خود بھی چور ہے تو اس کے خلاف بھی تحقیقات ہونی چاہئیں، کمشن کے قیام کا مطالبہ 20 کروڑ عوام کا ہے، حکومت نے انکوائری کمشن کی ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) کا دائرہ بہت وسیع کیا ہے، کمشن کے قیام کے حوالہ سے اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی کا رویہ متوازن نہیں ہے۔ جسٹس انور ظہیر ترکی کی سپریم کورٹ کی 54 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کے بعد یکم مئی کو وطن واپس آئیں گے۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ اپوزیشن پوائنٹ سکورنگ کررہی ہے، پانامہ لیکس پر کمشن کا قیام 20 کروڑ عوام کا مطالبہ ہے۔ پاکستان نے ہمیں سب کچھ دیا ہے، جمہوریت میں تسلسل نہ ہونے سے نظام مضبوط نہیں ہوسکا، انتخابی عمل کا تسلسل چھلنی کا کام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس پر تحقیقات کیلئے حکومت اور اپوزیشن کا رویہ درست نہیں ہے۔ اپوزیشن کمشن بنانے پر پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انکوائری کمشن کے ٹرم آف ریفرنسز کا دائرہ حکومت نے وسیع کیا ہے۔ پانامہ لیکس پر تحقیقات ہونا بیس کروڑ عوام کا حق ہے جو اس سے کوئی نہیںچھین سکتا۔ بی بی سی کے مطابق وفاقی حکومت نے وضاحت کی ہے کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات سے متعلق عدالتی کمشن کسی بھی ماہر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ یا کسی بھی بین الاقوامی فورنزک کمپنی کی خدمات حاصل کرسکتا ہے۔ وفاقی حکومت نے اگرچہ اس بارے میں کوئی تحریری وضاحتی بیان جاری نہیں کیا تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کمشن کے اختیارات سے متعلق ضابطہ کار میں جہاں یہ کہاں گیا ہے کہ کمشن 1908ء کے دیوانی ایکٹ کے تحت اسکی تحقیقات کیلئے وفاقی اور صوبائی اداروں کی خدمات حاصل کرسکتا ہیں وہیں وہ کسی بھی انکم ٹیکس کے ماہر کے علاوہ فورنزک فرم کی خدمات بھی حاصل کرسکتا ہے۔ اس کمشن کی تشکیل کے بعد اگر عدالتی کمیشن کسی شخص یا ادارے کی خدمات حاصل کرتا ہے تو اس پر اْٹھنے والے اخراجات وفاقی حکومت برداشت کریگی اور اس کیلئے کسی پیشگی اجازت کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔