اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹھی بھر مٹی سے خلق کیا اور جب ملائکہ کو تخلیق آدم کی خبر دی تو ملائکہ نے کہا۔ ” اے ہمارے رب تو اس کو تخلیق کرنے جارہا ہے جو فساد برپا کرے گا۔“ تو اللہ نے جواب دیا۔ ” اے میرے ملائکہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے“ اس کے بعد حضرت آدم کو خلق کرکے اللہ نے جنت میں بھیج دیا اور جب وہاں حضرت آدم اور حضرت حوا سے خطا ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو بطور آزمائش دنیا کی طرف روانہ کردیا۔ اسی لئے آدمی کو خطا کا پتلا بھی کہا جاتا ہے کہ جو بھی انسان ماسوائے انبیا ؑ کے دنیا میں آئے گا گناہ ضرور کرے گا اور جب گناہ کرنے کے بعد دل سے توبہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمادے گا چاہے وہ دن میں سو بار گناہ کرکے سو بار توبہ کرے اللہ تعالیٰ گناہ بخش دے گا بے شک وہ بڑا رحیم اور کریم ہے لیکن اس مٹھی بھر مٹی سے بنے ہوئے انسان کے کارنامے دیکھیئے کہ اس معمولی سے انسان نے اپنے رب کی بتائی ہوئی تمام حدودوں کو پار کر ڈالا حتیٰ کہ بزعم خود خدائی کا دعویٰ بھی کر بیٹھا اور اسی جیسے سیکڑوں انسان سب جانتے ہوئے بھی اپنے جیسے انسان کو خدا مان بیٹھے اور محض انسان تو کیا خدا کے بندوں نے تو گائے‘ سانپ‘ چاند‘ سورج اور پتھروں کے ضم اپنے ہاتھوں سے تراش کر انہیں بھی معاذ اللہ اپنا معبود بنالیا اور ایسا کرنے سے مٹی کا یہ انسان ذلت اور گمراہی کی انتہائی پستی میں جاگرا اور اس بندگی کے شرکانہ عمل کے علاوہ بھی انسان دیگر تمام معاملات میں بھی ذرا سے فائدے کے لئے اقتدار اور اخلاق کو چھوڑ کر زمین کی اتھاہ گہرائی میں جاپڑا سگے بیٹے نے زمین اور دولت کی خاطر اپنے باپ کو قتل کر ڈالا تو کہیں کسی بھائی نے پیسے کے لئے اپنے ماں جائے کی جان لے لی اس قسم کی خبریں آئے دن تواتر کے ساتھ اخبارات میں شائع ہوتی ہیں اسی طرح اس مٹی کے انسان نے اپنے ہی جیسے انسانوں کو فنا کرنے کے لئے سیکڑوں ہلاکت خیز ہتھیار ایجاد کر ڈالے بم‘ میزائل اور کیمیائی ہتھیاروں سے آج یہ ساری دنیا بھری پڑی ہے دنیا کے چند بڑے انسان جو خود کو انسانیت کا سب سے بڑا ہمدرد اور علمبردار گردانتے ہیں اپنے مفادات کے حصول کے لئے دنیا میں جگہ جگہ جنگ کے شعلے بھڑکا کر محض تماشہ دیکھتے ہیں ماضی کی ایران عراق کی جنگ ہو‘ بیروت اور فلسطین کی تباہی ہو‘ حالیہ افغانستان میں جاری جنگ ہو‘ عراق‘ شام‘ لیبیا کی خانہ جنگی ہو‘ برما میں مسلمانوں پر ظلم ہو‘ یا کشمیر کی جنگ آزادی ہو‘ ہر خطے میں دنیا کے یہ بڑے ممالک کے چند بڑے انسان اپنے اپنے مفادات کے لئے ان علاقوں میں جنگ مسلط کرکے لاکھوں بے گناہ انسانوں کا خون بہا رہے ہیں اپنے ملک میں قائم فیکٹریوں میں تیار ہونے والا بم بارود اور میزائل فروخت کرکے کثیر منافع بھی سمیٹ رہے ہیں لوگوں کی جان و مال بھی تباہ کررہے ہیں اور پھر انصاف‘ مساوات اور انسانیت کے لیکچر بھی سنارہے ہیں کیا یہی انسانیت ہے کہ آگ لگاﺅ تماشہ دیکھو اور آگ بجھانے کے محض دعوے کرتے رہو۔ ایک طرف دنیا میں بھوک ہے‘ ننگ جنگ ہے تو دوسری طرف اتنا رزق ہے کہ اسے کچرے میں پھینکا جارہا ہے اتنی خوشحالی ہے کہ امیر ممالک میں جانور بھی ایئر کنڈیشنڈز کمروں میں راحت پاتے ہیں ہمارے اپنے وطن میں بھی مٹی سے بنے ہوئے حقیر انسانوں نے دولت اور طاقت کی بناءپر دوسرے انسانوں کا جینا تنگ کر رکھا ہے ایسا فساد برپا کیا ہوا ہے کہ ساری دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں اور نہیں ملتی کتوں اور گدھوں کا گوشت گائے اور بکرے کا گوشت کہہ کر بیچا جارہا ہے۔ ہوٹل اور ریسٹورینٹوں میں مری ہوئی مرغیوں کی بریانی اور قورمے عوام کو کھلائے جارہے ہیں اور یہ سب ایسے ملک میں ہورہا ہے جو ایک اسلامی ریاست ہے۔ یہاں نمازیں بھی پڑھی جاتی ہیں ‘ روزے بھی رکھے جاتے ہیں‘ حج اور عمرے بھی خوب ادا کئے جاتے ہیں یہ سب عبادتیں بھی ہوتی ہیں حرام بھی کمایا جاتا ہے‘ رشوت حق سمجھ کر لی جاتی ہے‘ یتیم اور بیواﺅں تک کا مال ہڑپ کرلیا جاتا ہے پڑوسی اپنے پڑوسی کا جینا حرام کئے رکھتا ہے یہ سب ہمارے لئے انتہائی باعث شرم ہے پچھلے دنوں اپنے دورہ¿ پاکستان میں محترم امام کعبہ نے اسی حوالے سے اپنے خطبے میں فرمایا ”ہم سب نیکی کرتے ہیں لیکن اپنے دیگر خراب معاملات سے اسے ضائع کر ڈالتے ہیں گویا ہم نے نیکیاں جمع کرنے کےلئے سوراخ والے بیگ رکھے ہوئے ہیں جن سے گر کر ہماری سای نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں۔“ کاش اس مٹھی بھر مٹی سے بنے ہوئے انسان کو یہ بات سمجھ آجائے کہ یہ زندگی چند روزہ ہے اور جلد ہی موت آنے والی ہے مرنے کے بعد مٹی کے اس انسان کو منوں مٹی تلے دفنا کر لوگ قبر پر مٹھی بھر مٹی ڈال کر چلے جاتے ہیں اور مرنے والا اپنے اعمال کے حساب سے جزا اور سزا پاتا ہے۔