تاریخ عالم میں معراج النبیؐ کو انتہائی خصوصیت و اہمیت حاصل ہے اس عظیم واقع پر ایمان و عشق رسول سے سر شار مسلم امہ بجا طور پر فخر کرتی ہے کہ وہ اُس عظیم المرتبت محبوب خدا کی اُمت میں سے ہیں جنھیں اللہ رب العالمین نے حالت شعور میں زمینوں اور آسمانوں کی سیر کرائی جبکہ اس واقعہ کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے والے احمق آج تک شش و پنج میں گرفتار ہو کر اس عظیم واقعہ کی گھتیاں سُلجھانے میں لگے ہوئے ہیں ۔مگر یہ حقیقی امر ہے کہ معجزات اُسے ہی کہتے ہیں جو عقل سے بالاتر ہوں اللہ رب العزت نے اپنے پیارے محبوب ؐکو تمام انبیاء سے ممتاز کر کے معراج حالتِ شعور میں کرائی اور آپ ؐ راتوں رات مکۃ المکرمہ،بیت المقدس ،مسجد اقصیٰ اور پھر وہاں سے آسمانوں پہ تشریف لے گئے۔کائنات کی نہ صرف سیر کی بلکہ سدرۃ المنتیٰ پر پہنچ گئے۔
؎جلتے ہیں جبرائیل کے پر جس مقام پر
اُسکی حقیقتوں کا شناسا تم ہی تو ہو
سدرۃ المنتیٰ سے آگے حضور نبی کریم ؐ کا سفر مبارک آپ ؐ کی شان رسالت کی طرح ایسی عظیم بلندیوں کا سفر تھا جسے انسانی عقل سمجھنے سے قاصر ہے۔ معراج کے وقت نبی کریم ؐ کی عمر مبارک 51سال 8ماہ اور 20دن تھی یہ وہ زمانہ نبوی تھا کہ حضور ؐ اور مسلمانوں پہ کفار نے ظلم و ستم کی انتہاکر رکھی تھی لیکن آپ ؐ بغیر پایہ لغرش استقلال و ہمت سے پیغام توحید کو عام کر رہے تھے ایسے حالات و واقعات اور زمانہ میں آپ ؐ کو معراج کی سعادت نصیب ہوئی۔اُس وقت ابھی صبح نہیں ہوئی تھی سب سے پہلے آپ ؐ نے اسکا ذکر اُم ِ ہانی ؓ سے کیا وہ احتیاطً کہنے لگیں کہ یہ اس قدر عجیب ہے آپ ؐ اسکا ذکر ابھی کسی سے نہ کریں لیکن اللہ کے نبی ؐ نے خانہ کعبہ میں ادائیگی نماز فجر کے بعد رات کو پیش آنے والے واقعہ معراج سے آگاہی دی تو کفار یہ سن کر ہنسنے لگے اور تمسخر اُڑانے لگے وہ آپ ؐ کے پیچھے آوازیں کستے اور کہتے وہ دیکھو ( نعوذ باللہ ) آپ ؐبہک گئے ہیں۔ کسی نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے پوچھا کہ دیکھو آپ کا رفیق کیا کہہ رہا ہے؟ کیا کوئی بھی عقل ِ سلیم رکھنے والا یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ آپ ؐ ایک رات میں اتنے طویل سفر پہ گئے اور پھر واپس بھی آگئے۔اس واقع پر یارِ غارؓ نے جواب دیا وہ تا قیامت مسلم امہ کے لیے مشعل راہ ہے۔آپ ؓ نے فرمایا اس میں تو کوئی عجیب بات نہیں میں تو اس سے بھی عجیب بات مانتا ہوں کیونکہ نبی کریم روف الرحیمؐ ہمیشہ سے سچ بولتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ آپ ؐ کے پاس آسمان سے روزانہ فرشتہ جبرائیل ؑ آتا ہے جو خُدا تعالیٰ کا پیغام اور وحی بھی لاتا ہے۔معراج پاک کی تصدیق کرنے پر حضورنبی کریم ؐ نے آپ ؓ کو صدیق اکبر کا خطاب عطا کیا۔یہ واقعہ معراج النبی ؐ کا ایک اجمالی سا تعارف تھا لیکن یہ بحث گذشتہ پندرہ سال سے چل رہی ہے کہ معراج جسمانی تھی یا کہ ایک خواب تھا؟ کیا یہ حضورؐ کا روحانی سفر تھا پختہ ایمان والوں کے لیے اس میں کوئی الجھن نہیں رہی وہ صدیق اکبر ؓ کی پیروی کرتے ہوئے واقعہ معراج کو حضور نبی کریم ؐ کا شعور کی حالت میں جسمانی سفر تسلیم کرتے ہیں اور اس واقعہ کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں اور معراج النبی ؐ کی مقدس رات عبادت و ریاضت اور ذکرِ الہی میں گزارتے ہیں۔معراج النبی ؐ تکمیل انسانیت کی علامت ہے اور اس واقع معراج البنی سے خُدائے و ند قدوس نے ثابت کیا کہ اللہ رب العزت اپنے ایک محبوبؐ بندے کو تمام مادی تقاضوں کے باوجود کس قدر بلندیوں پہ پہنچا سکتے ہیں اور کائنات میں بندہ خُدا کا مقام کہاں تک ہے آج انسان تسخیر کائنات کی جانب جو قدم بڑھا رہا ہے تو حضرت محمد مصطفی ؐ اس کام کی ابتداء کرنے والے تھے اور انتہا کرنے والے بھی۔اسطرح واقعہ معراج تسخیر کائنات کے لیے بنی نوع انسان کے لیے خوشخبری بھی ہے۔اس فضیلت بھری رات کے متعلق حضرت ابو ہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا جس نے 27ویں رجب کا روزہ رکھا اُسکو 60 مہینوں کا ثواب ملے گا۔
جبکہ حضرت سلمان فارسی ؓ سے ہے کہ رسول اللہؐ کا ارشاد مبارک ہے ماہِ رجب کی اس دن بھی27ویں دن کا روزہ اور شب بیداری میں بسر کرے اُسے 100 سال عبادت کرنے کا اجر ملے گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس بابرکت رات کے فیوض و برکات سے بہرہ مند ہونے کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین ثمہ آمین