بلوچستان امن کی راہ پر۔ سندھ کا بھی خیال کیجئے

جب حکومتیں اپنی غفلت کی بنا پر مسائل سے پردہ پوشی کرنے لگ جائیں تو پھر ملک کے اندر حکومت کی رٹ کمزور ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے ۔آمریت اور جمہوریت میں یہی فرق ہے کہ آمر ہمیشہ طاقت کے نشے میں چور رہتا ہے اور وہ چاہتاہے کہ کوئی اس کے سامنے سر اٹھا کے نہ چلے ۔جو کوئی بھی کسی آمر حکمرا ن کے سامنے کھڑا ہونے کی جسارت کرتا ہے ہر دور میں وہ کسی دیکھی ان دیکھی گولی کا نشانہ بنتا رہا ہے ۔دوسری طرف جموریت کا حسن ہی یہ ہے کہ ہر حال میں عوام کے دل جیتے جائیں۔میاں نواز شریف کو جس وقت اقتدار ملا اس وقت تک بلوچستا ن میں حالات بہت زیادہ خراب تھے ۔مگر یہ جمہوریت کا ثمر ہے کہ ایک طرف سیاسی انداز میں بلوچستان کے عوام کے دل جیتے جارہے ہیں تو ساتھ ہی طاقت اور حکمت عملی سے بلوچستان میں جاری تشدد کے واقعات کو روکا جارہا ہے ۔بلوچستان رقبے کے لحاظ سے جتنا بڑا صوبہ ہے آبادی کے لحاظ سے صورتحال بلکل ہی الٹ ہے ۔میلوں دور تک آبادی کے آثار کا نظر نہ آنا دشمن کے لیے قدم جمانے میں آسانیاں پیدا کرتا رہا ہے ۔پچھلے چالیس سالوں سے جب سے افغانستان عدم استحکام کا شکار ہوا ہے اس کا براہ راست اثر پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔۔پاکستانی قوم اور افغانستان کے عوام کے دل ہمیشہ ایک ساتھ ہی دھڑکتے رہے ہیں ۔دونوں ملکوں کے عوام کے آپسی تعلقات ہمیشہ سے بہت مضبوط رہے ہیں ۔مگر افغان حکومت کا طرز عمل شروع سے ہی اس کے برعکس رہا ہے ۔افغانستان کے حکمرانوں نے ہر دور میں بھارت سرکار سے دوستی کو اہمیت دی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فوج اور حکومت کا بھارت اور افغانستان کی سرحدوں پر دھیان کچھ زیادہ رہا ہے ۔جس کا فائدہ بھارت اور دنیا کی دوسری ایجنسیوں نے بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرکے اٹھانے کی بہت حد تک کامیاب کوششیں کی تھیں۔مگر جس وقت ہماری سول حکومت نے بلوچستان میں امن کے عمل کو یقینی بنانے کا نیک نیتی پر مبنی فیصلہ کیا توبہت سے مسائل حل ہوتے چلے گئے۔مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے آپسی بہتر تعلقات کا سیدھا فائدہ بلوچستان کے عوام کو ملنا شروع ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ہماری فوج اور دوسری ایجنسیوں نے ایک مقدس مشن سمجھ کے بلوچستان سے ملک دشمن طاقتوں کا بہت حد تک صفایا کردیا ہے ۔آج کا بلوچستان روشنی کے سفر پر رواں دواں ہے ۔ کامیاب منصوبوںسے بلوچستان اگلے چند سالوں میں خوشحالی کے سفر پر بہت آگے نکلتا دکھائی دے رہا ہے ۔جو بلوچ نوجوان دشمن کے بہکاوے میں آکر ملک دشمن کاروائیوں میں ملوث ہو چکے تھے۔ہماری سیاسی اور عسکری کوششوں سے اب وہ ملک کے بہترین شہری بنتے جارہے ہیں۔ابھی چند دن پہلے بہت سے فراری ہتھیار پھینک کے قومی دھارے میں شامل ہوئے ہیں۔وزیر اعلی بلوچستان نواب ثنا اللہ مری نے بجا طور پر کہا کہ سینکڑوں فراریوں کا ہتھیار پھینک کے قومی دھارے میں شامل ہونا جہاں ملک دشمن طاقتوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے وہیں بلوچ نوجوانوں کا اپنی حکومت پر اعتماد بھی ہے ۔اب ہتھیار پھینک کے امن کے مسافروں کو سینے سے لگانے کا دور شروع ہوچکا ہے ۔انہوں نے درست کہا کہ ایک تابناک مستقبل بلوچ نوجوانوں کا مقدر ہے ۔ہم کسی صورت بھی دشمن کے مقاصد کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔قومی دھارے میں شامل ہونے والے نوجوان اس بات پر یقین رکھیں کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں نئی نسل کو ہر طرح سے بہترین مستقبل دینے کی کوشش کریں گی ۔وہیں فراریوں کے کمانڈرز نے ہھتیار پھینکنے کی تقریب میں بتایا کہ کس طرح بھارتی ایجنسیاں ہمارے نوجوانوں کو ورغلا کے اپنی دھرتی کے خلاف استعمال کرتی رہی ہیں۔بھارتی خفیہ ایجنسی را کی خواہش رہی ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو بلوچستان کے نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف بھڑکایا جاتا رہے ۔جو گندا کھیل بھارتی ایجنسیوں نے بنگلادیش میں کھیلا تھا وہ اب بلوچستان میں بھی دہرانا چاہ رہے تھے ۔مگر اب کسی دشمن کا ہمارے بچوں کا ورغلانا آسان نہیں رہا ہے ۔کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے فراریوں کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کے عمل کو نیک شگون قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کچھ عناصر بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کے لیے ملک دشمن طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوئے تھے ۔اب یہی لوگ ملکی استحکام اور بہتری کے لیے کام کریں گے ۔اب ضرورت ہے کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو کوٹہ کے حساب سے نہیں بلکہ ترجیحی بنیادوں پر روزگار فراہم کیا جائے ۔ہر منصوبے میں مقامی لوگوں کو شامل کیے بنا کسی بھی طرح دیر پا ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا ہے ۔
اب وقت ہے کہ مرکزی حکومت پوری تیاری کے ساتھ سندھ کے لوگوں کے بارے میں بھی سوچے ۔آخر کب تک سندھ کے لوگوں کو ترقی کے عمل سے دور رکھاجائے گا ۔پیپلزپارٹی کو کب تلک سندھ کے لوگوں کا بلا شرکت غیرے مالک و مختار بنایا جاتا رہے گا ۔جس طرح بلوچستان سے آنکھیں بند کی گئیں تھیں کیا آج سندھ بھی اسی سلوک کے زیر اثر تو نہیں ہے ۔آج کا اندرون سندھ ترقی میں پاکستان کے دوسرے علاقوں سے کہیں پیچھے ہے ۔جب وہ پاکستان کے دوسرے علاقوں کو دیکھیں گے تو ان کے اندر بھی احساسِ محرومی پیدا ہوسکتا ہے ۔سندہ کے حکمرانوں نے اپنے ہر دور میں صرف نعروں کے بل بوتے ووٹ تو ضرور حاصل کیے ہیں مگر انہیں سندھ کے لوگوں کی حالت بدلنے کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئی ۔آج زرداری صاحبان پنجاب بدلنے کے مشن پر نکلے ہوئے ہیں کاش وہ اس سے پہلے سندھی عوام کی تقدیر بدلنے کی کوشش کرتے ۔وہاں کے عوام کو صحت تعلیم اور دوسری بنیادی سہولتیں دینے کی کوشش کرتے ۔عوام کو روزگار دیتے ۔سڑکوں کا جال بنا کے دیہی اور شہری عوام کو ترقی کے لیے مناسب پلیٹ فارم مہیا کرنے کی کوشش کرتے ۔ اب بھی حکومت کے پاس ایک سال سے زیادہ کا عرصہ باقی ہے اگر نیت سے کوشش کریں تو سندھ کے لوگوں کے لیے بھی بہت کام ہو سکتے ہیں ۔ ملکی ترقی کے ثمرات سندھی عوام کو بھی پہنچاسکتے ہیں۔ مگر افسوس وہ آج بھی محرومیوں کا رونا رو کے ووٹ لینا چاہتے ہیں ۔ہر دور میںپنجاب میں جو بھی حکمران بنا ہے اس نے عوامی فلاح کے لیے کام کیے ہیں اس کی ایک وجہ یقینا یہ بھی ہے کہ پنجا ب کے عوام باشعور ہیں ۔یہ ہمیشہ سے کام کرنے والے حکمرانوں کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔ ووٹ کی طاقت کبھی کسی ایک کے سپرد نہیں کرتے ۔بلکہ جسے چاہتے ہیں مسند سے گرا دیتے ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...