عمران اور سراج الحق سینٹ اکھاڑے میں

سینٹ اور چیئرمین سینٹ کے انتخاب کو متنازع بنانے کا کھیل عروج پر ہے پاکستانی پارلیمان کے سب سے اہم ادارے ایوان بالا’سینٹ پر سب سے پہلا وار وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کیا تھا کہ چیئرمین صادق سنجرانی ووٹ خرید کر کامیاب ہوئے ہیں اور میں یہ بات دہراتا رہوں گا۔ بعدازاں جناب نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ پھر قدوس بزنجو کو ملنے والے ووٹوں کا مذاق اڑایا گیا تمسخر اڑانے والے بھول گئے کہ قدوس بزنجو کے ووٹروں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر ووٹ ڈالا تھا کہ دہشت گرد ڈاکٹر اللہ نذر نے اس حلقے کے ہر گھر میں کفن بھجوادئیے تھے کہ 2013 کے انتخاب میں ووٹ ڈالنے والے سیدھے قبرستان جائینگے۔جس پر علاقے کا جرگہ ہوا اور طے پایا کہ ہر گھر کا سربراہ ووٹ ڈالے گا اور دہشتگردی کی صورت میں باقی خاندان اس کا انتقام لینے کا پابند ہو گا چونکہ یہ لازوال قربانی پاکستان کے حق میں دی گئی تھی اس لئے کسی کو یاد نہیں اور نہ ہی پاکستان دشمن بلوچ دہشت گردوں کو “ ناراض عناصر “ قرار دینے والے اس کا ذکر کر نا چاہتے ہیں کہ یہ ووٹ قدوس بزنجو کو نہیں پاکستان اور وفاق پاکستان کو پڑے تھے اورووٹر گھر واپس آنے کی بجائے قبرستان جانے کےلئے کفن پہن کر آئے تھے ”ووٹ کو عزت دو“ کے نعروں میں جناب عمران خان نے خیبر پختون خوا میں اپنے 20 ارکان اسمبلی کو تحریک انصاف سے نکالنے کا اعلان کردیا ہے ان پر کروڑوں روپے لےکر ووٹ بیچنے کا الزام ہے۔لیکن انکے حکومتی اتحادی امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے عمران خان کو شوکاز نوٹس دے دیا۔ 
عمران خان کی اپنے ارکان اسمبلی کےخلاف کارروائی کے شورشرابے میں نیا غلغلہ بلند ہوا۔ سینیٹر سراج الحق نے گویا بم کا دھماکہ کردیا۔ صاف الفاظ میں عمران اور انکے وزیراعلیٰ کیخلاف گواہی دی، کہتے ہیں پرویز خٹک نے فون پر ان سے کہاکہ چیئرمین سینٹ کے منصب کےلئے صادق سنجرانی کوووٹ دینا ہے۔ استفسار پر بتایاگیا کہ ایسا کرنے کا حکم ’ا±وپر‘سے ملا ہے۔ ”سادگی“ اور ”بھول پن“ کی انتہاکرتے ہوئے موصوف کا بیان ہے ’معلوم نہیں یہ ’عرش معلی‘ سے حکم تھا یا کہیں اور سے۔‘ (نعوذبااللہ) ووٹوں نہیں ضمیر کے گندے کھیل میں عرش معلی کا حوالہ دینا جناب سراج الحق کو ہی زیبا ہوسکتا ہے۔ کشمیر اور امریکہ کی ’بھد‘اڑانے کے شوقین ’بہادر‘ اتنے ہیں کہ عرش معلی بارے مضحکہ اڑانے میں تو ذرا تامل نہ کیا لیکن ”اوپر والوں “کا نام لیتے ہوئے ’شرما، شرما‘ جاتے ہیں۔ بالکل یہی الزام خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے سراج الحق پر لگایا تھا کہ قادری عمران دھرنے کے دوران جناب سراج الحق نے خواجہ آصف سے کندھوں کی طرف اشارہ کرکے پوچھا تھا کہ جرنیل کس کے ساتھ ہیں جس کوئی جواب سراج الحق آج تک نہیں دے سکے لیکن اس کالم نگار نے تاریخ کی درستگی کےلئے خواجہ آصف کی ضرورت سے زیادہ اصلاح کردی تھی‘ ویسے اگر سراج الحق کو یاد نہیں تو ہم یاد دلائے دیتے ہیں وہ کہہ دیا کریں کہ بے نظیر کےخلاف جن کے کہنے پر دھرنا اور احتجاج کیاتھا۔ 
ایک چیف جسٹس پاکستان رہ گئے ہیں کہ سب کے سب انہیں نوٹس لینے کے لئے پکاررہے ہیں۔ گویا پاکستان میں ادارے نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ ہر طرف دہائی مچی ہے۔’نوٹس نوٹس‘ کی صدائیں ’حلقہ بگوش‘ ہونے کو مقابلے پر ہیں۔ سراج الحق کا بھی چیف جسٹس سے مطالبہ ہے کہ وہ نومنتخب سینیٹرز کو بلا کر حلف لیں کہ انہوں نے ووٹ خریدے نہیں ہیں۔ واہ کیا تیر بہدف حل نکالا ہے۔ ’نہ ہینگ لگی نہ پھٹکڑی رنگ بھی چوکھا‘ چڑھ گیا۔ وہ معترضانہ انداز میں یہ بھی جتلارہے ہیں کہ ’ چیف جسٹس ایک سال پہلے اگر پشاور کا دورہ کرتے تو انہیں وہاں ہریالی نظر آتی لیکن ہم مخلوط حکومت میں شامل ہیں جہاں فیصلے اکثریت سے ہوتے ہیں۔ میٹرو منصوبے نے پورے شہر کو اکھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں جماعت اسلامی نے راجہ ظفر الحق کو پانچ نکاتی معاہدہ کے نتیجے میں ووٹ دیئے جن میں آئین کی 62،63 دفعہ کا تحفظ اور دیگر اسلامی قوانین سے چھیڑ چھاڑ نہ کرنا شامل تھا۔‘ اتحادی جماعت کے سربراہ کے بیان پر پی ٹی آئی کو ملنے والی نئی ’زبان‘ روانی سے چلنے لگی۔ مشرف، پھر زرداری اور اب عمران کے ترجمان فواد چوہدری نے کہاکہ سراج الحق (ن) لیگ کے اتحادی ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ ’ہم ضمیر فروشوں کو پارٹی میں نہیں رکھیں گے۔‘ واہ، واہ۔ خان صاحب نے ’گھوڑے‘ کو تانگے کے آگے جوتنے کے بجائے پیچھے جوتنے کی انوکھی ترکیب نکالی۔ ہماری سیاسی جماعتوں اور قائدین کا دماغ شاید ایسے ہی چلتا ہے۔ کیا عمران خان کو اتنی دیر سے یاد آیا کہ ارکان کی خریدوفروخت ہوئی۔ ’بوقت ضرورت‘ عمران کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ شوکاز کا جواب آنے کا انتظار کیوں نہیں کیاگیا؟ ایسا پہلے بھی ہوا تھا جب ڈیرہ اسماعیل خان سے رکن قومی اسمبلی داوڑ خان ک±نڈی کو اختلاف پر عمران خان نے پارٹی سے نکالنے کا اعلان ایک ٹی وی انٹرویو میں کیا۔ شوکاز نوٹس بعد میں دیا۔ کیا اس مرتبہ بھی ان کا مقصد محض سستی شہرت کا حصول ہی تھا؟ وہ محض سراج الحق بننے کے شوقین ہیں؟ پارٹی کے دستور اور قانون کی پاسداری خود انکے اپنے مزاج پر اسی طرح گراں گزر رہی ہے جیسے ’مجھے کیوں نکالا ؟ یا کہ وہ محض خانہ پوری کرنا چاہتے ہیں جیسے بعض ایم پی ایز نے سوالات اٹھائے ہیں کہ ووٹوں کی خریدوفروخت میں جو لوگ ملوث تھے وہ خود عمران خان کی قریبی ٹیم میں شامل اور انکی سرپرستی میں بچ گئے لیکن ملبہ ان لوگوں پر ڈالا جارہا ہے جنہوں نے پارٹی کو ووٹ دیا اورپیسے نہیں لئے۔ اور کچھ نہ بن پڑا تو اب ’قرآن پاک‘ ہاتھ لے کر قسمیں کھائی جارہی ہیں۔ ب±را ہواس سیاست کا جس میں قرآن پاک اور عرش معلی کو اپنے مطلب کےلئے لے آیاجاتا ہے۔لوگ یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ عمران خان کو کے پی کے میں حرام ووٹ تو نظرآگئے لیکن پنجاب میں میرے مہربان کرم فرما چوہدری سرور کو جو ’حلال‘ ووٹ پڑے، ان کا خیال کیوں نہ آیا؟ اس منطق کی بھی کھوج ہورہی ہے کہ اگر ایم پی ایز نے نچلی سطح پر پیپلزپارٹی کے نامزد امیدواروں کو ووٹ دئیے وہ تو بری بات ہے۔ لیکن سینٹ انتخاب کے بعد صادق سنجرانی اور پھر زرداری کے نامزد ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کو عمران خان نے خود ووٹ ڈلوادئیے، انکو کس قیمت پر فروخت کیاگیا؟ یہ مطالبے بھی شروع ہیں کہ سینٹ کا انتخاب کالعدم ہونا چاہئے کہ اس میں بدترین کرپشن ہوئی۔ کچھ کا کہنا ہے کہ عمران خان نے چار حلقوں میں دھاندلی پر چار مہینے تک دھرنا دیا، احتجاج جاری رکھا۔ انکے اپنے بیس ارکان کی دھاندلی پر عمران خان کب دھرنا دےگا؟ عمران خان کی ’ملامت‘ پر رنجیدہ عبیداللہ مایار کا کہنا تھا کہ ’ووٹ کے بدلے کسی سے پیسے نہیں لیے اور ثبوت کے بغیر کارروائی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ عمران خان کے پاس میرے خلاف پیسے لینے کے ثبوت ہیں تو سامنے لائیں۔ امجد آفریدی نے یہ کہہ کر ’خس کم جہاں پاک‘ کردیا کہ پارٹی نے مجھے نکال دیا ہے اور میں آزاد ہوں۔ شاہ محمود قریشی نے مجھے پہلے ہی پارٹی سے نکال دیا تھا۔
یاسین خلیل ووٹ بیچنے والوں کی فہرست میں اپنا نام دیکھ کر حیران ہیں۔ کہا ’ووٹ بیچنے کے الزام سے بچنے کیلئے وزیراعلیٰ کو ایک روز پہلے ہی ووٹ نہ ڈالنے کا بتا دیا تھا۔انکوائری میں میرا موقف بھی نہیں لیا گیا۔ شوکاز کا جواب دوں گا اور پارٹی کو مطمئن کروں گا۔وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی عارف یوسف نے کہا کہ سینیٹ الیکشن کے معاملے پر انکوائری ٹھیک نہیں ہوئی اور مجھے بلا کر نہیں پوچھا گیا۔وزیراعلی پرویز خٹک کی سربراہی میں چھے رکنی انضباطی کمیٹی قائم ہوچکی ہے۔ جس میں عاطف خان، شہرام ترکئی، شہریار آفریدی، شاہ فرمان اور نعیم الحق شامل ہیں۔ خواتین ایم پی ایز نسیم حیات، نگینہ خان اور نرگس علی نے قرآن پر حلف اٹھاتے ہوئے پارٹی چیئرمین کے الزام کو جھوٹ قرار دیا۔ بددعائیں دیں کہ ہمیں رسوا کرنےوالوں کواللہ تعالی رسوا کریگا۔ کہاکہ ہمیں دس دن پہلے یقین دہانی کرائی گئی کہ تحقیقات نہیں ہورہی۔ نگینہ خان نے کہاکہ عمران خان کو جو کاغذ تھما دیا جاتا ہے وہ بول دیتے ہیں۔ بنی گالہ اور نوشہرہ کے فارم ہاﺅسز میں ڈیل ہوتی ہے اور الزامات ایم پی ایز پر لگائے جاتے ہیں۔نسیم حیات نے کہاکہ عمران صادق اور امین ہیں تو فارن اکاﺅنٹ ظاہر کریں۔ ہمیں بتایا جائے کہ چوہدری سرور کے پاس ووٹ کہاں سے آئے؟؟

ای پیپر دی نیشن