جس بات کا ذکر کرنے چلا ہوں اس پر کافی لوگوں کی متضاد آراء سامنے آتی ہیں لیکن راقم جس شہادت کا سہارا لے رہا ہے وہ تاریخی حوالے سے قائداعظم کے ایک دیرینہ ساتھی میاں عبدالعزیز مالواڈہ کی زندگی پر اردو بازار کے ایک ادارے "نشریات" نے 2006ء میں شائع کتاب کا ایک اقتباس ہے جو اس کتاب کے صفحہ نمبر 521 پر قائداعظم کے ان الفاظ کی صورت میں ہے کہ
I have to do all what work, I am to do with these spurious coins in my poket.
جس طرح عمران خان نے پچھلے ہفتے اپنی کابینہ میں رد و بدل کیا ہے ہے آج نہیں تو کل غالب امکان یہی نظر آ رہا ہے کہ مستقبل قریب میں عمران خان شائد یہی الفاظ اپنے صرف چند وزراء کیلئے ہی نہیں بلکہ اپنی پوری کابینہ اور پارٹی کے بیشتر ارکان کے بارے میں کہتے نظر آئیں۔ ایک عام قاری اس بارے کسی سیاسی وابستگی یا بْغض سے قطع نظر کیا رائے قائم کرتا ہے راقم یہ اْن پر چھوڑتا ہے کیونکہ ایک غیرجانبدار تجزیہ نگار کے پیشے کی یہی معراج ہوتی ہے کہ وہ متنازعہ معاملات پر اپنی رائے مسلط کرنے کی بجائے چیزوں کو تاریخ کے حوالے کر دے کہ وہ شواہد کی روشنی میں اسکے متعلق کیا فیصلہ صادر فرماتی ہے اور عوام کی کیا اکثریتی رائے اْبھرتی ہے۔ خیر یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ سردست قارئین اس مہینے تحریک انصاف اور اسکی حکومت کے حوالے سے جو صورتحال سامنے آئی ہے اور جو تبدیلیاں نظر آئی ہیں راقم نے اپنے 20 فروری کے کالم "شاہراہ زوال" میں اسکے متعلق پیشگی امکانی خدشے کا اظہار کر دیا تھا۔ کالم کے اختصار کی وجہ سے اْس پورے پیرائے کو نقل نہیں کر سکتا لیکن اتنا بتا سکتا ہوں کہ اس میں تحریک انصاف کے دو بڑوں کی لڑائی اور اْس بارودی مواد کے علاوہ کچھ ایسے لوگوں کی طرف اشارہ کر چکا ہوں جنکا کام ہی آگ لگانا ہے سو آگ تو اب لگ چکی اب تو دیکھنا یہ ہے کہ اس آگ کے شعلے کتنے بلند ہوتے ہیں اور کس کس کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں۔ ہمارا ایک تاریخی المیہ ہے کہ ہماری ہر سیاسی پارٹی اور اسکے ہمدرد جب ناکام ہونا شروع ہوتے ہیں تو وہ پھر اپنی ناکامیوں کا ملبہ کسی اور کے اوپر ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ میرے قارئین میرا اشارہ سمجھ گئے ہونگے جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اس میں سب سے بڑا ہاتھ اس پارٹی کی قیادت کی اپنی اہلیت، قابلیت اور شخصی خواہشات پھر انکے حصول kdgv' غیر ضروری سمجھوتے، اصولی موقف سے پسپائی، روائیتی اور بدنامِ زمانہ سیاسی لٹیروں بقول قائداعظم کھوٹے سکوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنا، نظریاتی کارکنوں سے دور ہونا اور پھر سب سے بڑھ کر الیکشن جیتنے کیلئے عوام سے ایسے وعدے کرنا اور ایسی اْمیدیں دلانا جنکا حصول زمینی حقائق کی روشنی میں مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔ اپنے ملک کی بہتر سالہ تاریخ پر ایک نظر ڈالیں ان میں ہر دور چاہے وہ فوجی آمریت تھی یا نام نہاد جمہوریت، ان ادوار میں درج عبارات کا جائزہ لیں تو ہر تحریر میں درج بالا عناصر کا وجود کسی کسی نہ کسی شکل میں ضرور نظر آئے گا اور یہی وہ المیہ ہے جسکی وجہ سے کوئی بھی حکومت عوام کی امنگوں پر اترنا تو درکنار انکے متعلق سوچنے کا تردد بھی نہیں کر سکی۔ غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ماضی کی طرح جس فارمولے کے مطابق اس عمرانی حکومت(لفظ پر غور لازمی ہے) کا قیام بھی عمل میں آیا اسکی کیمیائی ساخت chemical equation چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ مذکورہ بالا وہ تمام elements جو ایک ناکام حکومت کا سبب بنتے ہیں وہ اس حکومت کی ساخت میں بدرجہ اْتم موجود ہیں لہذا نظر آ رہا تھا کہ اس بھان متی کے کْنبے میں جوتیوں میں دال بٹتے زیادہ دیر نہیں لگنی۔ بطور ایک سچا پاکستانی یہاں اب سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشی تنزل، سیاسی افراتفری اور بیڈ گورنس سے شروع ہو کر ملکی عدم استحکام کی طرف گامزن اس تشویشناک صورتحال میں اس حکومت کی ناکامی کی داستان کیا یہاں پر روک جائیگی یا پھر آگے چل کر کسی اور سانحہ کو جنم دے سکتی ہے۔ راقم اکثر کہتا ہے کہ غیب کا علم صرف اور صرف اللہ کے پاس ہے لیکن اس دنیا میں اللہ نے کچھ ایسی نعمتیں تخلیق کی ہیں جن کو استعمال کر کے آپ آنے والے خطرات کا ادراک کر سکتے ہیں اور وہ نعمتیں ہیں فکری اساس اور شعور۔ ان دو نعمتوں کے ظہور کیلئے جو چیز بہت ضروری ہے وہ ہے مشاہدہ۔ لہذا عمران کی موجودہ کابینہ جو اس نے اب ترتیب دی ہے اسکی ہیبت ترکیبی پر ایک نظر ڈالیں تو تقریباً پنتالیس رکنی کابینہ میں سترہ یا غالبا اٹھارہ ارکان غیر منتخب ہیں جن میں اکثریت کی سرپرستی کون سے بین الاقوامی ادارے کر رہے ہیں وہ حقیقت سب کو نظر آ رہی ہے اپنی تیسری آنکھ جو دیکھ رہی ہے وہ حفیظ شیخ کی صورت میں ایک نئے شوکت عزیز کا جنم دیکھ رہی ہے لیکن ابھی یہ کہنا مشکل دکھائی دیتا ہے کہ آنے والا سسٹم کس طرز کا ہو گا اور اسکے خدوخال کیا ہونگے۔ یہ تو آنے والا وقت اور اس کا آرکیٹیکٹ ہی بتا سکتا ہے لیکن اتنے ٹیکنو کریٹس کی بھرمار کچھ عجیب سے خدشات اور تصورات کو جنم دے رہی ہے۔ چلتے چلتے ایک سوال کہ جس دور میں احتسابی اداروں کی رپورٹس ہونے کے باوجود اگر کوئی حکومت سسٹم کے آگے اتنی مجبور ہو کہ وہ چاہتے ہوئے بھی صرف لاہور شہر کے ایک ترقیاتی ادارے کے سربراہ کو تبدیل نہ کر سکے تو پھر کیسی حکومت اور کیسی گورنس؟