ہشت پہلو کرونا وائرس

کرونا وائرس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔دنیا میں کرونا اس طرح پھیلا جیسے کوئی وبا کسی گائوں میں پھیلتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے کر بے بس کر کے رکھ دیا۔ابھی تک اس کا کوئی علاج ہے نہ دوائی ہے۔احتیاط کرنے والے اس سے محفوظ ہیں۔ متاثرہ لوگ بھی چند روز میں تندرست ہوجاتے ہیں،سوائے انکے جو پہلے سے کسی شدید بیماری کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، سپین،اٹلی اور جرمنی سمیت کئی دیگر ممالک اس سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں، اور دیگر امیر اور ترقی یافتہ ممالک نے کرونا وائرس سے نجات کیلئے اپنے وسائل اور علاقائی ماحول کے مطابق حکمت عملی اختیار کی ۔ترقی یافتہ ملکوں کو تیسری دُنیا کے وائرس سے متاثرہ افراد کی بھی دل کھول کر مدد کرنی چاہئے ۔ پاکستانیوں کو بھی متعلقہ حکام کے ساتھ تعاون کر کے اسکے پھیلائو کو روکنے میں کردار ادا کرنا چاہئے ، لیکن بعض لوگ اس مسئلہ پر سنجیدہ نہیں دکھائی دے رہے۔ اس خوفناک چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے ، میڈیا کوبھی غیر جانبدرانہ ، مستند حقائق پر مبنی اعدادو شمار فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرنا ہوگا۔ کیونکہ مستند اعدادوشمار کی عدم موجودگی میں ہر قسم کی امدادی کاروائی بے اثر ہو کر رہ جائے گی۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان نے اپنے طور پر انتہائی کم بجٹ میں کسی بھی ملک بلا امتیاز وہ ترقی یافتہ امیر یا پسماندہ تھے،سب سے بڑھ کر کامیابی حاصل کی ہے۔اسکے اسباب میں وزیراعظم عمران خان کی غیر معمولی فعالیت،حکومت اور پاک فوج کے مابین کامل ہم آہنگی اور عوامی تعاون کیساتھ عدلیہ کا کردار شامل ہے۔مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو ایسے مواقع پربہت سے اقدامات اور فیصلے کرنے پڑتے ہیں جو براہ راست عوامی فلاح اور بھلائی سے متعلق ہوتے ہیں۔عدلیہ کو اس حوالے سے کوئی سقم یا بہتری کی گنجائش نظر آئے تو ازخود نوٹس یا کسی پٹیشن پر حکومتوں کو اصلاح احوال کیلئے کہہ دیتی ہے۔ اس کی ایک جھلک پیر 20اپریل کی چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بنچ کی سماعت کے دوران نظر آتی ہے ۔جس میں فنڈزکی شفافیت پر سوالات اُٹھائے گئے۔ گزشتہ دنوں اِ س مقدمے کی سماعت کے دوران بنچ کی طرف سے یہ مشاہدہ بھی کیا گیا۔ کہ 9ارب سے زائد رقم وفاق نے صوبوں کودی اس کی مانیٹرنگ ہونی چاہئے ۔ مانیٹرنگ سے صوبائی خود مختاری پر کوئی حرف نہیں آتا ۔ مانیٹرنگ بھی ایک طرز کا آڈٹ ہی ہے ۔سپریم کورٹ نے بیت المال اور زکوٰۃ کی رقم کے خرچ پر مفتی تقی عثمانی اور اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے بھی طلب کی ہے ۔یہ امر قابلِ تحسین ہے کہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر 20 اپریل کو عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ میڈیکل ایسوسی ایشن نے 8ہسپتالوں میں 2700بستروں پر مشتمل قرنطینہ سیکٹرز بنانے کی تیاری کی ہے اور اس کیلئے حکومت سے کسی بھی قسم کی امداد نہیں لی ۔ سپریم کورٹ نے میڈیکل ایسوسی ایشن کے اس عمل کو سراہا ہے اور اپنے حکم میں ڈاکٹرز اور میڈیکل عملہ اور سینٹری ورکرز کو خراجِ تحسین پیش کیااور توقع کی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوامی مفاد میں متفقہ فیصلہ کریں گی۔ پاکستان کے عوام کی بھی یہ دُعا ہے کہ قومی یکجہتی کو مستحکم بنایا جائے اور پاکستان کی سا لمیت کمزور کرنے کے دُشمن کے ایجنڈے کو نیست ونابود کر دیا جائے ۔
حکومت کو بہت سے فیصلے کرنے ہوتے ہیں،جو وہ کربھی رہی ہے بہت سے پاکستانی بیرون ممالک موجود ہیں۔انکی تعداد لاکھوں میں ہے۔ان میں سے ہزاروں اپنے وطن آنا اور حکومت ان کو لانا چاہتی ہے۔ پاکستان میں کرونا کے انسداد کے حوالے سے حالات کئی ممالک کے مقابلے میں بہتر اور اقدامات مناسب ضرور ہیں مگر ان کو مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا۔صرف انہی پاکستانیوں کو واپس آنا چاہیے جو وزٹ یا عارضی طور پر گئے تھے، جن کی وہاں پر ملازمت اور کاروبار ہیں، وہ وہیں صورتحال کی بہتری کا انتظار کریں۔تاہم پاکستانی حکومت ان کی اسی طرح معاونت یا کفالت کرے جس طرح وہ پاکستان میں موجودبے روزگار ہونے والوں یا بے وسیلہ لوگوں کی کررہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارت نے بے رحمانہ کرفیو نافذ کررکھا ہے۔مگر وہ کشمیریوں کو غلامی پر مجبور کرنے کیلئے ہے ، جسے کشمیری کسی طور اور کسی قیمت پر قبول کرنے کو تیار نہیں،وہ موقع ملتے ہی نوماہ سے جاری کرفیو کی پابندیوں کو روندتے ہوئے باہر نکلتے ہیں۔ان پر سفاک بھارتی سپاہ اندھا دھند فائرنگ کرکے نعشیں گرا دیتی ہے۔ کشمیری ایسا ایک مشن اور کاز کیلئے کرتے ہیں۔
کشمیر کاز سے مجھے کوئی پندرہ سال قبل کا واقعہ یاد آگیا’’ کیمبرج میں کامن ویلتھ کے ملکوں کے چیف الیکشن کمشنر زکی سالانہ کانفرنس تھی ، میں نے چیف الیکشن کمشنر پاکستان کی حیثیت سے شرکت کی ۔ بھارت کے چیف الیکشن کمشنر نے کانفرنس میں پڑھنے کے لئے دو پیپر تیار کیئے اور انہیں کانفرنس کے شرکاء میں تقسیم کر دیا ۔ ایک میں گجرات کے انتخابات کے دوران مسلمانوں کے قتلِ عام کا اعتراف کیا اور کہا کہ اسکی وجہ سے گجرات میں الیکشن شفاف نہ ہو سکے۔ دوسرے پیپر میں دعویٰ کیا کہ مقبوضہ وادی میں انتخابات بڑے صاف وشفاف تھے۔ میں نے بھارتی الیکشن کمشنر اور کانفرنس کے چئیرمین دونوں سے ملاقات کی اور واضح کر دیا کہ چونکہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کو آزاد تسلیم نہیں کرتالہٰذا وہا ں ہونے والے انتخابات خواہ وہ کیسے تھے، پاکستان اُن کی حیثیت کو تسلیم ہی نہیں کرتا اگر آپ نے یہ پیپر کانفرنس میں پڑھا تو میں واک آئوٹ کر جائونگا ۔ چنانچہ موصوف نے گجرات سے متعلقہ پیپر ہی پڑھا۔ دوسرا روک لیا۔‘‘
باوجودیکہ ، مقبوضہ وادی اور بھارت کرونا کی لپیٹ میں ہیں ، مودی حکومت کے مسلمانوں پر مظالم جاری ہیں۔ بھارت میں توشدت پسند کرونا کے پھیلاؤ کا ذمہ داربھی مسلمانوں کو قرار دے کر ان کے علاج میں تعصب کا مظاہرہ کررہے ہیں۔یہ عالمی ضمیر کی مجرمانہ چشم پوشی اور بے حسی کی بدترین مثال ہے۔
یہ سوال بھی بدستور سامنے آرہا ہے کہ کرونا وائرس بائیو ہے یا قدرتی ہے۔ یہ نظریہ غلط ہے یا صحیح ، حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ اس بحث میں امریکہ اورچین سمیت بڑی طاقتوں کے اُلجھائو نے شک وشبہ کی فضاء پیدا کر دی ہے جو دلچسپ بھی ہے اور افسوس ناک بھی۔امریکہ کی جانب سے کبھی دبے لفظوں میں اور کبھی واضح طور پر ووہان کی لیبارٹری میں اس کی تیاری کی بات کی جاتی ہے۔امریکی اپنے ہاں جب ہلاکتوں اور متاثرین کی بڑھتی تعداد کو دیکھتے ہیں تو ان کا ایسی بربادی پر اوسان خطا ہونا ایک فطری امر ہے۔اب میں آپ کو تھوڑا پیچھے لے جاتا ہوں۔جب فروری کے آخر میں چین میں کورونا پھوٹ پڑا ہلاکتوں پر ہلاکتیں شروع ہو گئیں۔ تو چین کی طرف سے امریکہ کو اس وائرس کی تیاری اور پھیلاؤ کا موردِ الزام ٹھہرایا جانے لگا۔کہا جارہا تھا کہ امریکی فوجی کسی ایونٹ میں شرکت کیلئے وائرس ساتھ لائے تھے۔ابھی کورونا کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔اسکے مکمل تدارک تک سازشی اور غیر سازشی تھیوریاں سامنے آتی رہیں گی۔
کرونا ایک تباہ کن وبا ہے،مصیبت ہے ، جس نے دنیا کو مزید قریب کردیا ہے۔یہ ایک ایسا شر ہے جس سے خیر کے پہلو بھی سامنے آرہے ہیں۔نئے امکانات اور مثبت رجحانات بھی جنم لے رہے ہیں، جن کو مستقل اپنایا جاسکتا ہے۔دنیا بھر میں پٹرول کی قیمتیں کم ہوگئیںجبکہ پیداوار اُتنی ہی ہے۔یہ قیمتیں پوسٹ کرونا بھی برقرار ر ہیں تو مہنگائی کا جن بوتل میں بندکرنا زیادہ مشکل نہیں ہو گا ۔ دنیابھر میں پولیوشن کا خاتمہ ہوگیاہے۔ہم نیچر کے قریب تر ہوگئے ہیں۔رات دو دوبجے تک کاروبار کھلے رکھے جاتے تھے، مگر ان دنوں رات آٹھ بجے سے صبح آٹھ بجے تک ہو کا عالم اور سناٹا ہوتا ہے۔کاروباری سرگرمیاں صبح آٹھ سے شام پانچ بجے تک ہی جاری رہتی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن