’’یوم کتاب، یوم ِتوؔبہ اور سُورۂ توبہؔ!‘‘

معزز قارئین! کل ( بروز جمعرات ) 23 اپریل کو ’’ عالمی یوم کتاب‘‘ (World Book Day) منایا گیا۔ یہ الگ بات کہ ’’دُنیا بھر کے مسلمان اپنی صبح کا آغاز ’’کتاب اللہ‘‘ ( قرآنِ پاک ) کی تلاوت سے کرتے ہیں۔ مصّورِ پاکستان علامہ اقبالؒ نے 1936ء میں لکھی گئی ایک نظم میں ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں ’’ابلیس‘‘ ( شیطان) نے (اُس دَور کے ہر مسلمان کے بارے میں ) اپنے مشیروں سے یہ کہہ کر خُوشی کا اظہار کِیا تھا کہ …؎
ہے یہی بہتر الٰہیات میں اُلجھار ہے!
یہ کتاب اللہ کی تلاوت میں اُلجھار ہے!
…O…
شارع ِ علاّمہ اقبالؒ مولانا غلام رسول مہر ؒ نے اِس شعر کا مفہوم یہ بیان کِیا ہے کہ ’’جب اُمّتِ ؔمسلمہ‘‘ اپنے ایمان پر پختہ نہیں ہے تو (ہمارے لئے) بہتر یہی ہے کہ ’’وہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق فلسفیانہ بحثوں میں اور ’’تاوِیلات‘‘ (طرح طرح کی تعبیروں) کے گورکھ دھندوں میں پھنسی رہے‘‘۔ حالانکہ اِس سے پہلے 1913ء میں علاّمہ اقبال ؒ نے اپنی نظم ’’جواب ِشکوہ‘‘ میں ہر مسلمان (خاص طور پر) صاحبانِ اقتدار مسلمانوں کو یہ خُدائی پیغام پہنچایا تھا کہ …؎
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں!
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں!
…O…
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے!
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کردے!
…O…
معزز قارئین! علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظم ؒ کا پاکستان تو 16 دسمبر 1971ء کو ہی دولخت ہوگیا تھا جب مشرقی پاکستان‘ بنگلہ دیشؔ بن گیا تھا۔ 20 دسمبر 1971ء کو ’’قائد ِ عوام‘‘ اور ’’فخرِ ایشیائ‘‘ کہلانے والے ذوالفقار علی بھٹو نے (دُنیا کے پہلے ) سِویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے بچے کھچے پاکستان کو ’’نیا پاکستان‘‘ کا نام دے کر اقتدار سنبھالا۔ بھٹو صاحب پھانسی پا گئے پھر فوجی آمریت اور اُس کی لے پالک ؔ جمہوریت کے دَور میں بھی کوئی بھی حکمران ’’قوتِ عشق‘‘ ( محمدؐ) سے ’’پست‘‘ (طبقوں) کو ’’بالا‘‘ ( بلندی ) پر نہیں لے جا سکا۔ اُس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ’’ہمارے یہاں مختلف مسالک کے سیاسی علماء بھی ’’الٰہیات‘‘ اور ’’تاوِیلات‘‘ میں اُلجھے رہے ؟
’’کورونا وائرس کا عذابِ الیم !‘‘
اِس وقت مَیں یہ سوال نہیں کروں گا کہ ’’آخر پاکستان میں جب بھی عام انتخابات ہوئے اور مختلف مسالک کے سیاسی عُلماء نے اپنا اتحاد ؔبھی بنایا تو وہ کبھی بھی پارلیمنٹ میں ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ کیوں حاصل نہیں کر سکے؟‘‘ لیکن مَیں کیا کروں؟ کہ ’’کورونا وائرس‘‘ کا ’’عذابِ الیم‘‘ تو پوری دُنیا پر نازل ہوچکا ہے اور ہم (پاکستانی) مسلمان اِس ’’عذابِ الیم‘‘ (دردناک عذاب) سے ربّ اُلعالمِین ؔاور رحمتہُ لِلعَالمین ؐ سے پوری دُنیا کے اِنسانوں کے لئے نجات کی دُعائیں کر رہے ہیں لیکن، حیرت ہے کہ ’’حرمین شریفین (مکّہ معظمہ اور مدینہ منّورہ) سمیت سعودی عرب کی سر زمین ’’کورونا وائرس‘‘ کی زد میں ہے؟‘‘
’’یوم توبہ!‘‘
پاکستان کے مختلف مسالک سے (بالمشافہ) یا "VideoLink" کے ذریعے صدرِ پاکستان عارف اُلرحمن علوی اور وزیراعظم عمران خان کی ملاقاتوں کے بعد اعلان کِیا گیا ہے کہ ’’آج (بروز جمعتہ اُلمبارک 24 اپریل کو) یوم توبہؔ اور یوم رحمتؔ منایا جائے گا‘‘۔ اچھی بات ہے۔ گُناہ سے پچھتانے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے رجوع کرنے کو توبہ کہا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے رحمت طلب کرنا تو بہت ہی نیک کام ہے لیکن کیا وزیراعظم اور ’’پاکستان تحریک انصاف‘‘ کے چیئرمین عمران خان کی قیادت میں محض ’’پاکستان تحریک انصاف‘‘ اور اُس کی اتحادی جماعتوں کا ’’یوم توبہ اور یوم رحمت‘‘ منانا کافی رہے گا؟ پاکستان میں صدر جنرل پرویز مشرف صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے دَور میں‘ جن بااختیار حکمرانوں اور اُن کے معاونِین پر مقدمات قائم (یازیر سماعت) ہیں کیا وہ ’’یوم توبہ اور رحمت‘‘ میں شریک نہیں ہوں گے ؟‘‘
’’سُورۂ توبہ‘‘
معزز قارئین ! ہم مسلمانوں کے گھروں میں والدین اور مساجد میں علماء کرام اپنے بچوں اور طلبہ و طالبات کو قرآن پاک کی ’’سُورۂ توبہ‘‘ بھی پڑھاتے ہیں۔ ’’سُورۂ توبہ‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ ’’جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اُسے اللہ کی راہ میں (عوام کی بھلائی پر) خرچ نہیں کرتے تو آپ اُنہیں درد ناک عذاب کی بشارت دیجئے، جس دِن کہ ’’سونا اور چاندی دوزخ کی آگ میں گرم کِیا جائے گا اور پھر اُس سے اُن کی پیشانیاں‘ اُن کے پہلو اور اُن کی پشتیں داغی جائیں گی اور اُن سے کہا جائے گا کہ ’’یہ وہی سونا چاندی ہے، جس کو تم نے جمع کر رکھا ہے، سو اب تُم اُس چیز کا مزا چکھو جو تم جمع کرتے رہے ہو!‘‘
’’قُلِ الْعَفو ‘‘
قرآن پاک کی ایک آیت ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ ’’لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ’’( اللہ کی راہ میں) کِس قدر خرچ کریں؟‘‘ آپ ؐ اُنہیں جواب دے دیں کہ ’’جتنا تمہارے خرچ سے بچ جائے‘‘۔ 21 اپریل کو مصّور ِپاکستان علاّمہ اقبالؒ کا یوم وِصال منایا گیا تھا۔ آپ ؒنے شاید مستقبل کے پاکستان کا نقشہ کھینچتے ہُوئے کہا تھا کہ…؎
جو حرفِ قُل ِ العَفو میں پوشیدہ ہے اب تک!
اِس دَور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار!
…O…

ای پیپر دی نیشن