شہباز شریف کی رہائی کے باوجود خاموشی،ن لیگ فرینڈلی اپوزیشن کیلئے آمادہ دکھنے لگی

Apr 24, 2021

اسلام آباد (رپورٹ: عبدالستار چودھری) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کی رہائی کے باوجود ان کی خاموشی سے لگتا ہے کہ ن لیگ بھی اب فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے لئے کسی حد تک آمادہ ہو گئی ہے تاہم آنے والے دنوں میں مسلم لیگ (ن) کے اندر ’’جارحانہ‘‘ اور ’’مفاہمتی‘‘ انداز سیاست کے درمیان آنکھ مچولی بھی غیر متوقع نہیں۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے قائد کی جانب سے جو نئی ہدایات جاری کی گئی ہیں جن کے تحت میڈیا میں صرف شاہد خاقان عباسی، رانا ثناء اللہ، اورنگ زیب اور احسن اقبال جیسے جارحانہ انداز اپنانے والے رہنما ہی پارٹی کی نمائندگی کریں گے لیکن آثار بتاتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں پارلیمنٹ کے اندر مسلم لیگ مفاہمتی انداز ہی اپنائے گی۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی کے ایوان میں مسلم لیگ کے رہنمائوں کی بے بسی کی حد تک خاموشی سے صاف پتہ چلتا تھا کہ ایوان میں صورتحال ان کے لئے بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہی۔ ادھر پیپلزپارٹی قرارداد پیش ہونے کے موقع پر ایوان سے غائب ہونے کے باوجود گزشتہ روز ایوان میں سب سے زیادہ شور مچاتی رہی کہ انہیں قرار داد پر بولنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اپنی نشست پر کھڑے ہو کر سپیکر سے پوائنٹ آف آرڈر پر بولنے کی اجازت مانگتے رہے لیکن ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے وفاقی سوالات سے قبل پوائنٹ آف آرڈر دینے سے صاف انکار کر دیا جس کے بعد سپیکر ڈائس کا گھیرائو کر لیا گیا، اگرچہ مسلم لیگ (ن)  کے ارکان بھی اس احتجاج میں شامل تھے لیکن ان سے زیادہ پرجوش تو حکومتی ارکان تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جہانگیر ترین کے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب کہ پیپلزپارٹی کے ارکان نے بھی کافی شور شرابا کیا جس پر اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا۔قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل اپوزیشن چیمبر میں مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی ہوا جس میں مریم اورنگ زیب کے علاوہ تقریباً تمام مرکزی قائدین موجود تھے لیکن اجلاس کے بعد ایوان میں جاتے ہوئے پارلیمانی راہداریوں میں کھڑے میڈیا نمائندوں سے لیگی رہنمائوں نے گفتگو سے گریز کیا اور خاص طور پر شاہد خاقان عباسی کی ’’باڈی لیگوئیج‘‘ اس بات کی نشاندہی کر رہی تھی کہ وہ جس موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں مستقبل قریب میں انہیں اپنے پارٹی صدر کی جانب سے شاید حمایت نہ مل سکے۔ پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ لندن سے جاری ہونے والی حالیہ فہرست بھی نہ صرف پارٹی کے اندر تقسیم کی طرف اشارہ کر رہی ہے بلکہ ’’جارحانہ‘‘ اور ’’مفاہمتی‘‘ رویوں کے مابین بھی رسہ کشی چلتی رہے گی اور بالآخر جیت کس کی ہو گی اس کا انحصار آنے والے حالات پر ہو گا۔

مزیدخبریں