کرونا احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کے لیے افواجِ پاکستان کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یقیناً تیزی سے پھیلتے کرونا اور عوام کی طرف سے احتیاطی تدابیر کو مسلسل نظر انداز کئے جانے کے بعد حکومت کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ کرونا کا پھیلاؤ قومی مسئلہ بن چکا ہے گذشتہ ایک برس کے دوران اس عالمی وبا کی وجہ سے پاکستان کو بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ ملک میں جاری کرونا کی دوسری لہر نہایت خطرناک ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہسپتالوں میں جگہ نہیں ہر دوسرا شخص کرونا سے متاثرہ نظر آتا ہے۔ اموات کی شرح بڑھ رہی ہے دنیا بھر میں کرونا کی اس لہر سے انسانی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ بھارت میں بھی کرونا کی تباہ کاریوں نے معمولات زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے، ہسپتالوں میں جگہ نہیں ہے، آکسیجن کے مسائل نہایت خطرناک ہو چکے ہیں۔ کرونا خطرے کے پیشِ نظر کینیڈا نے پاکستان اور بھارت کیلئے فضائی آپریشن معطل کر دیا ہے۔ ابتدائی طور پر یہ پابندی تیس روز کیلئے عائد کی گئی ہے۔پاکستان پر فضائی پابندی کے بعد پی آئی اے کی پروازیں تیس روز تک کینیڈا نہیں جاسکیں گی۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کو کینیڈین ایوی ایشن اتھارٹی کا نوٹس موصول ہوگیا ہے۔ پاکستان میں بھی حالات مختلف نہیں ہیں اگر عوامی سطح پر اسی لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے رہے تو پھر حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ پمز ہسپتال میں کرونا مریضوں کیلئے جگہ ختم ہو چکی ہے اور انتظامیہ نے ہاتھ کھڑے کر دئے ہیں۔ کراچی میں کرونا مثبت کیسز کی شرح 8.9 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ سندھ میں کرونا کی وجہ سے جنوری 2021 میں چار سو اکتیس ، فروری میں تین سو انتالیس اور مارچ میں ایک سو اکاون اموات ہوئی ہیں جب کہ اپریل میں اب تک 72 مریض انتقال کر چکے ہیں۔ تمام بڑے شہروں میں کرونا کی وجہ سے حالات بہت خراب ہیں تھوڑی بہت احتیاطی تدابیر پر عمل ہو رہا ہے وہ شہروں کے مخصوص علاقوں یا پھر انفرادی طور پر ہو رہا ہے لاہور سے باہر نکلیں شیخوپورہ کی طرف سفر کریں یا شیخوپورہ سے فیصل آباد جائیں یا پھر لاہور سے قصور جائیں یا پھر لاہور سے اوکاڑہ اور ساہیوال کی طرف سفر کریں آپکو کہیں نہ تو کرونا نظر آئے گا نہ کرونا کا خوف ہو گا نہ لوگوں میں کرونا سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر پر عمل ہوتا نظر آئے گا۔ مسلسل اس رویے اور حکومتی ہدایات کو نظر انداز کیے جانے کے بعد حکومت کے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا تھا کہ افواجِ پاکستان سے مدد لی جائے۔ یہ ایک طرح سے سول حکومت کی مدد ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طاقت میں اضافہ ہے تاکہ کرونا سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرایا جا سکے پا پھر بازاروں کی حد تک معاملات کو زیادہ بہتر انداز میں چلایا جا سکے۔ کرونا کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے ایسے اقدامات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔
یہاں حکومت کے اس فیصلے کے بعد بعض لوگ یقیناً تنقید کر رہے ہوں گے ان کے نزدیک سول بالادستی کو خطرات لاحق ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہے تاریخ گواہ ہے کہ فوج نے ہر مشکل وقت میں قوم کا ساتھ دیا ہے۔ فوج ہر مشکل وقت میں عوام کی مدد کرتے ہوئے نظر آئی ہے۔ ماضی میں زلزلے ہوں یا تباہ کن سیلاب یا کوئی اور قدرتی آفت ہو یا پھر ملک کسی بھی بڑے مسئلے سے گذر رہا ہو فوج نے ہر مشکل وقت میں اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ کرونا کسی بھی طرح بڑی قدرتی آفات سے کم نہیں ہے۔ ملک کو ایک بڑے مسئلے کا سامنا ہے اور اس مشکل سے نکلنے کے لیے حکومت نے فوج کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ اگر ایس او پیز پر ٹھیک طریقے سے عمل کیا تو شہروں میں لاک ڈاؤن نہیں کرنا پڑے گا۔ فوج سے کہا ہے کہ ایس او پیز پر عملدرآمد کیلئے ہماری فورسز کے ساتھ سڑکوں پر آئے۔ حکومت مسلسل ایس او پیز پر عملدرآمد کی ہدایات جاری کرتی رہی لیکن لوگوں میں کوئی خوف نہیں اور کہیں کوئی احتیاط نہیں کر رہا۔ اس لیے فوج کو پولیس اور فورسز کی مدد کرنے کیلئے کہا ہے۔ عوام نے لاپرواہی جاری رکھی تو لاک ڈاؤن کرنا پڑے گا۔ اس فیصلے سے معیشت کو نقصان پہنچے گا۔ دکانداروں، فیکٹریوں کو نقصان پہنچے گا اور سب سے زیادہ نقصان غریب طبقے کو ہوگا۔ بھارت جیسے حالات ہوگئے تو شہر بند کرنا پڑیں گے۔ بھارت میں آکسیجن کی کمی ہوگئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک انداز سے مذہبی طبقے کو سراہا ہے اب یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ مذہبی اجتماعات میں احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ بنیادی طور پر لوگوں میں شعور پیدا ہونا چاہیے کہ وہ کرونا کو حقیقت سمجھتے ہوئے ردعمل کا اظہار کریں۔ جب تک لوگ اسے سنجیدہ نہیں سمجھیں گے اس وقت تک احتیاطی تدابیر پر عمل ممکن نہیں ہے۔
جہاں تک فوج کی مدد کا تعلق ہے یہ پہلا موقع نہیں ہے ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فوج نے دہشت گردی کیخلاف کامیابی سے جنگ لڑتے ہوئے ملک کو اس لعنت سے نجات دلائی ہے۔ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے نتیجے میں ملک میں امن و امان بحال ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیرونی طور پر بھی فوج خطے کے بدلتے ہوئے حالات میں اپنا کردار بہترین انداز میں ادا کر رہی ہے۔ گوکہ بعض حلقوں کو فوج کے متحرک کردار پر اعتراض ضرور ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے موجودہ دور میں خطے کے بدلتے حالات میں فوج سول حکومت بھی بھرپور معاونت کر رہی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں بہتری کیلئے فوج کا کردار بہت مثبت رہا ہے۔ اسی طرح ایران اور روس کے ساتھ عسکری قیادت کی بات چیت بھی باجوہ ڈاکٹرائن کا حصہ ہے۔ یہی نہیں چین، متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ بھی دفاعی شعبوں میں ہونے والی پیشرفت سے خطے میں پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ سب سے اہم افغانستان میں امن عمل ہے۔ اس معاملے میں بھی عسکری قیادت نے بھرپور انداز میں اپنا کردار نبھایا ہے۔ یہ سب کام ملک و قوم کے بہتر مستقبل کیلئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت سے ہونے والے بیک ڈور مذاکرات میں ایک مرتبہ پھر مسئلہ کشمیر کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے فوجی قیادت نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کی ہے۔ فوج کے کردار پر تنقید کرنے والے حضرات اگر اس پہلو کو بھی دیکھیں تو یقیناً وہ حقائق عوام تک پہنچا سکتے ہیں۔ فوج پاکستان کے دفاع کی ضامن ہے۔ فوج کا سب سے بڑا مفاد ملکی سلامتی ہے، عوام فوج کی طاقت ہے اور افواجِ پاکستان ملک و قوم کی سلامتی پر یقین رکھتے ہوئے اپنا کام کر رہی ہے۔ دنیا میں کہیں فوج کے کردار پر اتنی تنقید نہیں ہوتی جتنی ہمارے ہاں ہوتی ہے۔ اپنی فوج پر غیر ضروری تنقید سے ناصرف دشمنوں کو باتیں بنانے کا موقع ملتا ہے بلکہ اندرونی طور پر بھی انتشار کا خدشہ رہتا ہے۔ سیاست دانوں کو بالخصوص اس عمل کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ مضبوط فوج مضبوط پاکستان کی ضمانت ہے۔ اللہ اس ملک کو تاقیامت قائم و دائم رکھے۔