نفاذِ اُردو کیلئے کاوشیں

Apr 24, 2021

ہمارے ملک اور ہماری قوم کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ دور ِ اول کے قائدین کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعدملک و قوم کو یہاں کوئی ایسا قائد اور رہنما نہ ملا جو قوم و ملک کے عین مفاد کے مطابق قومی زبان کو اس ملک میں نافذ کرنے کی اہمیت کو سمجھتا، اس کا شعور رکھتا اور اسکے نفاذ کیلئے سنجیدہ و عملی اقدامات کرتا۔جمہوری حکومتوں نے یہ تو کیا کہ ہر آئین میں اردو کے قومی زبان ہونے اور اسے آئین کی ایک شق قراردینے میں تامل نہ کیا اور اسے آئین کا حصہ بنایا لیکن اسے نافذ کرنے کی بابت کسی حکومت یا حکمراں نے اپنے دورمیں کوئی سنجیدہ اور مؤثرپیش قدمی کبھی نہ کی۔صرف جنرل ضیاء الحق کا دور ایک استثنائی مثال ہے کہ ’’جمہوری‘‘ حکمرانوں کے مقابلے میں اس ’’آمر‘‘ نے نہ صرف قومی زبان کی اہمیت و افادیت کا کھل کر اعتراف کیا بل کہ اسے بہ حیثیت ذریعۂ تعلیم اور بطور دفتری زبان نافذ کرنے کی ضرورت کو محسوس بھی کیا اور ہر دو کے نفاذ کیلئے عمل اقدامات بھی کیے۔سابقہ حکومتوں نے اردو کی ترقی کیلئے چند ادارے ضرور قائم کیے لیکن کوئی ایسا ادارہ قائم نہ کیا جسے اردو کی ترقی سے بڑھ کر اردو کے نفاذ یا اسکی ترویج کا کام سپرد ہواہو، جیسا ضیاء الحق نے اپنے دور ِ حکومت کے دوسرے ہی سال ’’مقتدرہ قومی زبان ‘‘قائم کرکے ملک کی تاریخ میں نہایت منفرد اور قابل ِ قدر کام کیا، جسے پچھلی ’جمہوری‘‘ حکومت نے ختم ہی کردیا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری!اسے ختم کرکے اردو کے ایک عام اور بے اثر سے ادبی ادارے کی حیثیت دے کر ’ادارہ ٔ فروغ قومی زبان‘ کا نام دیاہے اور جیسے اس طرح کے متعدد اداروں کے ہونے کے باوجود اسکی کوئی ضرورت باقی رہ گئی تھی! ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ کا خاتمہ دراصل اس سابقہ ’’جمہوری‘‘ حکومت کا کھلا اعلان تھا کہ اس ملک میں قومی زبان کے نفاذ کی کوئی ضرورت نہیں۔ظاہر ہے یہ فیصلہ اسی سیاسی جماعت کی حکومت کا تھا جس نے ماضی میں سندھ میں قومی زبان کے نفاذ کو سرکاری سطح پر سارے صوبوں سے ہٹ کر ایک دعوت ِ مقابلہ دیا یاچیلنج کیا تھااور بلوچستان، صوبہ سرحد اور پنجاب کی طرح ، جنھوں نے کھلے دل سے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا تھا،سندھ میں سرکاری زبان بننے نہ دیا۔ ضیاء الحق نے مقتدرہ ٔقومی زبان کو فروری 1918ء میں یہ ہدایت دی تھی کہ وہ ایسی سفارشات مرتب کرے کہ مرحلہ وار قومی زبان سرکاری و دفتری معاملات میں رائج ہوسکے۔ چنانچہ مقتدرہ نے ہنگامی بنیادوں پر فورا ً ہی ایسی سفارشات مرتب کرکے پیش کردیں کہ تین سال کی مدت میں اردو بتدریج ہر سطح پر رائج ہوجاتی(راقم الحروف اس زمانے میں مقتدرہ سے کئی حیثیتوں سے منسلک تھا اور ان مراحل کی ترتیب کا ایک راست اور چشم دید گواہ بھی تھا)۔ان سفارشات کو کابینہ ڈویژن کے اجلاس منعقدہ13 ؍ اکتوبر 1891ء کو تمام صوبائی حکومتوں، ڈویژنوں اور وزارتوں کے نمائندوں نے اصولا ً منظور بھی کرلیااور یہ توقع پیدا ہوگئی کہ ان سفارشات کو اسی سال کابینہ کے سامنے پیش کرکے منظور کرالیا جائے گا اور یوں قومی زبان ان سفارشات کے مطابق نافذ کردی جائے گی۔لیکن وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ نوکر شاہی نے یہ سفارشات دو سال تک کابینہ کے ایجنڈے ہی میں شامل نہ ہونے دیں۔بصورت مجبوری و اصرار بالآخریہ ایک ایسے عاجلانہ اجلاس میں پیش کی گئیں جب صدر مملکت (جنرل ضیاء الحق)بیرون ِ ملک روانہ ہونے والے تھے، انکے پاس وقت کم تھا کہ ان سفارشات پر مؤثر انداز سے فیصلے کرسکتے۔ چنانچہ صرف چند شقوں پرگفتگو ہوسکی تھی کہ اجلاس ختم ہوگیا۔اسکے بعد یہ سفارشات کبھی کابینہ میں پیش نہ کی گئیں، بل کہ یہ بھی سننے میں آیا کہ کسی ضرورت کے تحت جب ان سفارشات کوایک بار تلاش کیاگیاتو متعلقہ دفتر میں دستیاب بھی نہ ہوئیں اور مقتدرہ کے دفتر سے منگوائی گئیں!یہ بات مسلمہ و عیاں رہی کہ ضیاء الحق حقیقی معنوں میں قومی زبان کے نفاذ کیلئے انتہائی مخلص اور سنجیدہ تھے۔بل کہ واقعہ یہ ہے کہ ایک ’’آمر‘‘ نے ملک میں قومی زبان کو نافذ کرنے کیلئے جتنی مخلصانہ کوششیں کیں ، ان سے قبل اور بعد میں کسی حکمراںنے ایسا سوچا بھی نہیں، عمل کیا کرتے۔ مقتدرہ ٔ قومی زبان کے قیام ہی پر انھوں نے اکتفا نہ کی تھی بل کہ اس کو زیادہ سے زیادہ فعال و خود مختار بنانے کیلئے اسکی تشکیل و کارکردگی کے اعتبار سے اسے کسی وزارت کے ماتحت نہیں بل کہ راست صدر ِ مملکت کے ماتحت رکھا تھا تاکہ وہ دفتری گورکھ دھندوں اور نوکر شاہی کے اثرسے بے نیاز رہ کر سہولت اور سرعت کے ساتھ اپنی سفارشات کو راست صدر مملکت سے منظور کرواکے نفاذ کے قابل بنادے۔ ضیاء الحق کو قومی تقاضوں کے تحت قومی زبان کے نفاذ سے اس حد تک دل چسپی تھی کہ مقتدرہ کی سفارشات کے ترتیب پانے کے عرصے ہی میں انہوں نے اپنے ماتحت اداروں کو ہدایت کردی تھی کہ وہ اپنے معاملات زیادہ سے زیادہ قومی زبان میں انجام دیں اور خود بھی اردو کو استعمال کرنے کا عملی مظاہرہ کرکے اپنے افسران کے اس احساس ِ کمتری کیلئے ایک مثال قائم کی کہ وہ انگریزی زبان پر انحصار چھوڑ دیں۔
انہوں نے صرف ملکی اور قومی سطح پر نہیں بل کہ اقوام ِ متحدہ ،چین اور کیوبا وغیرہ میں اردو زبان میں تقریریں کرکے اپنی قومی زبان کو صرف قومی نہیں، بین الاقوامی حیثیت بھی دے دی۔مقتدرہ نے بھی اس عرصے میں، اسکے اولین صدرڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور معتمد میجر آفتاب حسن کے اخلاص اور سنجیدگی کے نتیجے میں (بعد کے تمام صدور کی طرح محض عام سی سطحی و ادبی کتابیں چھاپنے کے بجائے، جس میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی انگریزی اردو لغت یا اس طرح کی اکا دکا قدیم فرہنگیں ایک استثنا ہیں جو دیگر ادوار میں شائع ہوئیں) صرف تین سال کی مدت میں اردو کے نفاذ کیلئے سفارشات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ اردو کو دفتری زبان بنانے کیلئے تمام ضروری مواد، فرہنگیں، اصطلاحات اورلغات یکجا اور فراہم کرنے کی کامیاب کوشش کرلی اور اردو کا ٹائپ رائٹر بھی بنالیا جو اتنی تعداد میں بن گیا کہ کارخانے میں رکھنے کی جگہ نہ رہی۔
ضیاء الحق کے بعد کسی حکمراں نے اس جانب نہ کوئی توجہ دی نہ کسی میں ایساجذبہ و شعور ہی کبھی دیکھنے میں آیا کہ وہ ملک میں قومی زبان کے نفاذ کیلئے کبھی سوچتے بھی ہوں، سنجیدہ اور فعال ہونا تو دور کی بات ہے!انھیں تو قومی تقاضوں، قومی ضرورتوں اور ملک کی ترقی و خوش حالی سے صرف زبانی طور پر اور اعلانات کی حد تک دل چسپی نظر آتی ہے، قومی زبان کا نفاذ ان کی کبھی ترجیح نہیں رہی۔ملک میں ہر طرف پھیلی بد امنی و ناانصافی اس امرکا کھلا ثبوت ہے کہ ہمارے حکمراں قانون اور آئین کے تقاضوں کو بھی وہ اہمیت نہیں دیتے جو انصاف ، اہلیت اور دیانت کاتابع نظام قائم کرسکے تو قومی زبان کے نفاذ کے لیے آئین کی متعلقہ شق ان کی ترجیحات میں کیوں کر شامل ہوتی؟ 1937ء کے آئین کی رو سے 51سال کی دی گئی رعایت بھی 1988ء میں ختم ہوگئی کہ اس سال تک قومی زبان کو ملک کی ہر سطح پر رائج ہوجانا چاہیے تھا۔ اگر مقتدرہ کی دی گئی سفارشات پر عمل ہوتا تو اگست 1982ء سے اردو کے نفاذ کا سلسلہ شروع ہوتا جو اگست 1958ء تک تین سال میں مکمل ہوجاتا۔لیکن ضیاء الحق کے بعد یہ سب عزائم و امکانات قصہ ٔ پارینہ بن کر رہ گئے ہیں۔اس خاص مقصد سے قائم کردہ ادارہ(مقتدرہ) سابقہ ’’جمہوری‘‘حکومت کی عاقبت نااندیشی کے سبب اب ایک عام سا ادبی ادارہ بناکر رکھ دیا گیا ہے، جس کو اردو کے نفاذ اور ترویج کیلئے ضروری مواد فراہم کرنے، نئی علمی و سائنسی اور فنی اصطلاحات اور لغات و فرہنگوں کی ترتیب و تیاری اور اشاعت کے بجائے بڑی حد تک عام سے ادبی موضوعات پرسطحی اور غیر معیاری کتابیں چھاپنے پر لگادیا گیاہے۔اس ادارے کا جریدہ ’’اخبار اردو‘‘، جو نفاذ اردو کے مسائل و معاملات پر عوام کی جانب سے رہنمائی کے حصول اوران تک معلومات کی فراہمی کیلئے جاری کیا گیاتھا، اور جس نے آغاز ِاجرا ٔ میں ، جب تک کراچی سے نکلتا رہا، اس کردار کو ادا بھی کیا لیکن اسلام آباد منتقلی کے بعد اس ادارے کے بدلتے ہوئے کردار کی طرح اس نے اپنے مزاج کو بھی بدل ڈالاہے۔

مزیدخبریں