تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو

کتاب ،علم اور انسان کا رشتہ بڑا قدیم اور گہرا ہے ۔کتب کے پڑھنے سے نہ صرف انسان کو اپنی پہچان نصیب ہوتی ہے بلکہ وہ اس سے حاصل علم و معلومات کے ذریعے اللہ کی پہچان بھی کرتا ہے۔ قلم،تحریر اور کتاب نے انسانی تہذیب و تمدن ،مذہبی،معاشی اور سائنسی ایجادات کے ارتقاء میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انسانی فکرو خیال کی راہوں کو اُجالا دیا ۔دنیاوی کتابوں کے علاوہ آسمانی و مقدس کتب بھی انسان کی بھلائی اور کامیابی کیلئے اتاری گئیں ۔جس میں توریت،انجیل،زبور اور سب سے بڑھ کر قرآن مجید ہے جوسرچشمہ علم و عرفان ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم دے کر اسے تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی ۔ کتاب کی اہمیت اس بات سے عیاں ہے دنیا کے تمام مذاہب کے پاس اپنی مقدس کتب موجود ہیں۔علم کے حصول کے ذرائع میں کتاب کو بنیادی و مرکزی حثیت حاصل ہے۔قران مجید کو انسان کے لئے سر چشمہ ہدایت اور خزینہ حکمت سے موسوم کیا گیا ہے جو ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اس کا پڑھنا رہنمائی،ثواب اور راہ ہدایت کا موجب ۔
 قدیم چین میں کاغذ کے ایجاد کے ساتھ ہی کتاب کا وجود عمل میں آیا۔کتاب انسان میں فکر و شعور، قابل ِفہم نظریات کی آگہی کو جلا ودیعت کرتی اور مظاہر کائنات کو اس پر منکشف کرتی ہے۔ ماضی میں جب علم اور معلومات کے الیکٹرانک اور ڈیجیٹل ذرائع نہ تھے کتاب ہی علم،معلومات، تعلیمی و ذہنی سطح کی بلندی اوررہنمائی کا واحد ذریعہ سمجھی جاتی تھی۔مختلف شعبہ ہائے زندگی میںماہرین ،نامور محققین،مفسرین، مفکرین ،مصنفین اور محدثین نے اپنے علم ،بھائی چارہ،روحانی قدروںاور تجربہ کو کتابوں اور اپنی تصانیف کے ذریعے عام کیا،ماہرین طب نے کتابوں کو عوام الناس کی صحت بارے معلومات اور علاج فراہم کئے۔روحانی شخصیات نے مختلف زبانوں میں کتابوں کے ذریعے  اسلام کا پرچار کیا۔سائنس کے ماہرین نے کتابوں سے سائنسی علم کو فروغ دیا۔
ماضی میں کتب بینی کی اہمیت ،فوائد اور ضرورت کے پیش نظر بڑے بڑے کتب خانے اور لائبریریاں تعمیر کی گئیں جو کسی بھی ملک و ملت کی عملی ،ثقافتی اور تہذیبی فروغ کا بہت بڑا ذریعہ سمجھی جاتی تھیں۔ خواتین کے جہیز میں کتب کی موجودگی جزوِ لازم تھا۔بقول کارلائل دنیا میں صرف کتابیں ہی حکومت کرتی ہیں۔کتابیں ذہنی تفریح، تعمیری سوچ میں وسعت ،ظلمت کی جگہ نور او رگھٹا ٹوپ اندھیرے میں تجلی اور مشعل کی مثل ہیں۔ کتابیں قوموں کو عروج سے ہمکنار  اور ہمہ قسمی زوال  سے بچاتی ہیں ۔ 
فرانسیسی لیڈر نپولین بونا پارٹ کا خیال ہے جو لوگ مطالعہ کتب کرتے ہیں وہ ذہنی و اخلاقی طور پر اس قدر مضبوط ہوتے ہیں کہ دنیا کی باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں۔شعراء نے اپنی تخلیقی کتابوں سے اپنی قوم قبیلے کو جہالت،مایوسی ،غم اور غلامی کی قعر مذلت سے نکال کر  کامیاب انسان بنا کر اوج کمال تک پہنچا دیا۔کتابیں تنہائی کا ساتھی اور کشیدہ خاطر میں ڈھارس بندھاتی ہیں ۔کتاب کے قاری میں استقلال اور بلند حوصلوں  کے جواہر خواص پیدا  ہوتے ہیں۔ دانا لوگ کتب بینی کو ہر نعمت اور آسائشات پر ترجیح دیتے ہیں۔ یونان کے معروف طبیب اور فلسفی ، روم کے شہنشاہ مارکس آری لیس کے شاہی طبیب ماہر حیاتیات’’حکیم جالینوس‘‘ سے کسی نے پوچھا آپ علم و حکمت میں دوسروں سے آگے کیسے نکلے؟ ’’انہوں نے کہا میں نے کتابیں پڑھنے کیلئے چراغ کے تیل پر اس سے زیادہ خرچ کیا جتنا لوگ کھانے پینے پر خرچ کرتے ہیں ۔‘‘  افسوس عصرِ حاضر میں انٹر نیٹو دیگر الیکٹرانک انٹرٹینمنٹ ذرائع نے قوم کو کتب مطالعہ سے دور کر دیا ۔ہزاروں لائبریریوں میں پڑی نایاب اور کردار کی تعمیر و اصلاح کرنے والی کتابیں دیمک اور دھول کی نذر ہو چکی ہیں ۔آج صرف کتابوں کا مطالعہ زیر تعلیم طالبعلموں کا حصہ بن چکیں ۔کتب بینی میں اسلام کی عظمتِ رفتہ کی یادیں مضمر ہیں اپنے اسلاف اور اسلام کی پر شکوہ بڑائی کے نشاۃ ثانیہ میں لوٹنے کیلئے کتابوں کو رفیق و ہمنوا بنانے،کتب بینی میں شوق پیدا کرنے اورکتب خانوں کی رونقیں بحال کر کے قابلِ رشک صاحبِ علم و عمل افراد سے مزیّن معاشرے کی تشکیل کی جا سکتی ہے ۔
 مطالعہ کو لازم سمجھتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے اسی لئے فرمایا تھا ـ 
؎  تجھے کتاب سے ممکن نہیںفراغ کہ تو   
کتاب خواں ہے صاحب کتاب نہیں

ای پیپر دی نیشن